شق صدر کی تعداد
شام کے سفر کے وقت عمر
شادی کے وقت عمر
حق مہر
اولاد
تعمیر کعبہ
اعلان نبوت
ہجرت حبشہ
حضرت عمر فاروق کا ایمان
حضرت خدیجہ کا انتقال
معراج النبی
مسجد قباء کی تعمیر
جسم مبارک
پیٹ مبارک
قد و قامت
مہر نبوت
گردن مبارک
ناک مبارک
پیشانی مبارک
پیشانی مبارک کشادہ اور چوڑی تھی (شمائل ترمذی)
آنکھیں مبارک
بھوئیں مبارک
بال مبارک
سفید اور کالے بال
داڑھی مبارک
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشت سے زائد داڑھی کو کاٹ دیتے تھے ،یہ بات درست نہیں کیونکہ ایک مشت سے داڑھی بڑی ہی نہیں ہوتی تھی (فتاوی رضویہ ،ج٢٢،٥٩٠)
ہاتھ اور بازو مبارک
انگوٹھی مبارک
آواز اور انداز گفتگو
آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) خوش آواز اورمناسبت کے ساتھ بلند آواز والے تھے (سیر ت مصطفی ؐ )دوران گفتگو دانتوں کے درمیان سے نور نکلتا تھا (شمائل ترمذی )آپ ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کرتے تھے۔
لعاب دہن مبارک
پاؤں مبارک
نعلین مبارک
چال اور رفتار مبارک
لباس مبارک
سرخ کپڑے
ازار مبارک
عمامہ مبارک
خوشبو
جمائی
آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو کبھی جمائی نہیں آئی (شرح زرقانی )
تیراکی
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحابہ کرام کے ساتھ تلاب میں تیرنا ثابت ہے۔ (فتاوی رضویہ، ج بائیس، ص دو سو پچپن)
حسن و جمال
خوشی
قضائے حاجت
مختصر سیرت النبی ﷺ
جمع و ترتیب:
احسان اللہ کیانی
یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا مختصر سا خاکہ ہے، اس میں آپ کو سیرت النبی سے متعلق ضروری معلومات مل جائیں گی۔
نام و نسب :
نام :محمد
والد کا نام :عبد اللہ
والدہ کا نام :آمنہ بنت وہب
داداکانام :عبد المطلب
نسب : محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب
پیدائش :
آپ بارہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے
بمطابق بیس اپریل پانچ سو اکتہر
آپ پاک بدن ،ناف بریدہ ،ختنہ شدہ حالت میں پیدا ہوئے
بچپن :
آپ کی زبان سے جو کلمات سب سے پہلے نکلے وہ یہ تھے
اللہ اکبر اللہ اکبر
الحمد للہ رب العالمین وسبحان اللہ بکرۃ و اصیلا
پیشاب پاخانہ :
آپ نے بچپن میں کبھی بھی کپڑوں میں پیشاب ،پاخانہ نہیں کیا ،ہمیشہ ایک معین وقت پر رفع حاجت کرتے تھے ۔
کھیل کود :
آپ بچپن میں بچوں کو کھیلتے دیکھتے تھے ،لیکن خود ہر قسم کے کھیل کود سے الگ رہتےتھے،بچے جب آپ کو کھیلنے کے لیے بلاتے تو آپ کہتے میں کھیلنے کیلئے نہیں پیدا کیا گیا ہوں ۔
بکریوں کی دیکھ بھال :
آپ بچپن میں حضرت حلیمہ کی بکریوں کی دیکھ بھال بھی کرتے تھے ،جو تمام انبیاء و رسولوں کی سنت ہے ۔
دودھ پلانے والیاں :
آپ نے سب سے پہلے "حضرت ثویبہ " کا دودھ پیا ،پھر اپنی والدہ "حضرت آمنہ " کا، پھر "حضرت حلیمہ سعدیہ "کا
بچپن کی خدمت گزار :
جب آپ اپنی والدہ کے پاس واپس آئے تو "حضرت اُم ایمن "آپ کی خدمت کرتی تھی ،یہی آپ کو کھانا کھلاتی تھیں ،اور آپ کے کپڑے دھویا کرتی تھیں ۔
والدہ کی وفات :
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے والد آپکی پیدائش سے قبل ہی وفات پا گئےتھے۔ آپ ﷺ کی والدہ چھ سال کی عمر میں وفات پا گئی ۔
والدہ کی وفات کے بعدآپ کے دادا حضرت عبد المطلب نے آپ کی پرورش کی ذمہ داری سنبھالی ۔
داداکی وفات :
آٹھ سال کی عمر میں آپ کے دادا بھی وفات پا گئے ۔
دادا کی وفات کے بعد آپ کے چچا نے آپ کی پرورش کی
اعلان نبوت سے قبل کی زندگی :
بیس سال کی عمر اور جنگ فجار :
آپ نے بیس سال کی عمر میں جنگ فجار میں شرکت فرمائی ،مگر کسی پر ہتھیار نہیں اٹھایا ،صرف اتنا ہی کیا کہ اپنے چچائوں کو تیر اٹھا اٹھا کر دیا کرتے تھے ۔
جنگ کے خاتمے پر ایک معاہدہ :
جنگ فجا ر کے خاتمے کے بعد ایک معاہدہ ہوا ،اس معاہدے میں حضور ﷺ بھی شریک ہوئے ،آپ اعلان نبوت کے بعد بھی فرمایا کرتے تھے ،اس معاہدے سے مجھے اتنی خوشی ہوئی ہے ،کہ اگر کوئی
مجھے سرخ اونٹ بھی دیتا تو اتنی خوشی نہ ہوتی ۔
وہ معاہدہ یہ تھا
الف :ملک سے بے امنی دور کریں گے
ب:مسافروں کی حفاظت کریں گے
ج:غریبوں کی امداد کرتے رہیں گے
د:مظلوم کی حمایت کریں گے
ر:کسی ظالم یا غاصب کو مکہ میں نہیں رہنے دیں گے
اس معاہدے کو "حلف الفضول "کہتے ہیں
پچیس سال کی عمر :
پچیس سال کی عمر میں آپ کی امانت و صداقت کا چرچا دور دور تک ہو چکا تھا ،اسی دوران آپ حضرت خدیجہ کا سامان تجارت لے کر ملک شام گئے ،اس سفر میں حضرت خدیجہ کے غلام "میسرہ " بھی آپ کےساتھ تھے ۔
حضرت خدیجہ سے نکاح :
اس سفر کے بعد حضرت خدیجہ کا دل رسول اللہ ﷺ کی طرف مائل ہوا،آپ نے رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہ کو بلایا ،اور ان سے رسول اللہ ﷺ کے ذاتی حالات کے بارے میں معلومات لیں ،پھر نفیسہ بنت امیہ کے ذریعے خود ہی رسول اللہ ﷺ کو پیغام نکاح بھجوایا ۔
حضرت خدیجہ کی پہلے دو شادیاں ہو چکی تھی ،دونوں خاوند فوت ہو گئے تھے
پہلے خاوند سے دو بیٹے ،اور دوسرے خاوند سے ایک بیٹا اور بیٹی تھی ۔
رسول اللہ ﷺ نے اس رشتے کو اپنے چچا ابو طالب اور اپنے خاندان کے بڑے بوڑھوں کے سامنے پیش کیا ،خاندان والوں نے اس رشتہ کو قبول کیا ،اور نکاح کی تاریخ مقرر کر دی ۔
حضرت ابو طالب نے اپنے مال سے بیس اونٹ حق مہر مقرر کیا ۔
جبکہ ورقہ بن نوفل نے چار سو مثقال مہر رکھا ۔
رسو ل اللہ ﷺ کا پہلا نکاح :
حضرت خدیجہ آپ کی پہلی بیوی تھی ،حضرت خدیجہ کی وفات تک رسول اللہ ﷺ نے دوسرا نکاح نہیں کیا ،حضرت خدیجہ تقریبا 25سال تک آپ کےساتھ رہیں ۔
آپ ﷺ کی اولاد :
آپ کے بیٹے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے سوا ،آپ کی تمام اولاد حضرت خدیجہ ہی کے بطن سے پیدا ہوئی ۔
پینتیس سال کی عمر :
جب آپکی عمر پینتیس برس ہوئی ،تو زوردار بارش کی وجہ سے حرم کعبہ میں ایسا سیلاب آیا ،کہ کعبہ کی عمارت بالکل ہی منھدم ہو گئی ،لھذا قریش نے طے کیا کہ کعبہ کی مظبوط عمارت بنائی جائے ،جس کا دروازہ بلند ہو ،اور چھت بھی ہو ،قریش نے مل جل کر کام کیا ،حضور ﷺ بھی اس کام میں شریک تھے ،جب عمارت "حجر اسود "تک پہنچی ،تو قبائل آپس میں جھگڑنے لگے ،ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ حجر اسود کو اٹھا کر دیوار میں نصب کرے ،تاکہ یہ اس قبیلے کے لیے فخر و اعزاز کا باعث ہو ،آپ ﷺ نے اس جھگڑے کو اس خوبصورتی سے حل کیا ،آپ نے فرمایا :جو جو قبیلہ حجر اسود کو اس مقام پر رکھنا چاہتا ہے وہ اپنا ایک سردار چن لیں ،چنانچہ ہر قبیلے نے اپنا ایک سردار چن لیا ،آپ ﷺ نے اپنی چادر مبارک بچھائی اور حجر اسود کو اپنے ہاتھوں سے اس پر رکھا ،اور تمام سرداروں سے فرمایا :سب لوگ اس چادر کو تھام کرمقدس پتھر کو اٹھا ئیں ،چنانچہ سب سرداروں نے چادر کو اٹھا یا ،جب حجر اسود اپنے مقام تک پہنچ گیا ،تو حضور ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے اسے اپنے مقام پر رکھ دیا ،اس طرح ایک خونریز لڑائی ٹل گئی ۔
جو سامان تعمیر کعبہ کے لیے جمع ہوا تھا ،وہ کم پڑگیا تھا ،اس لیے قریش نے کچھ حصہ باہر چھوڑ کر چھوٹا کعبہ بنا دیا ۔جو حصہ باہر چھوڑااسے حطیم کہتے ہیں ۔
خاندانی پیشہ :
آپ کا اصل خاندانی پیشہ تجارت تھا ،کیونکہ آپ بچپن میں ہی حضرت ابو طالب کے ساتھ کئی سفر فرما چکے تھے ،اس لیے آپ کو تجارتی لین دین کا کافی تجربہ ہو چکا تھا ،آپ نے اعلان نبوت سے قبل تجارت ہی کو ذریعہ معاش کے لیے تجارت ہی کو اختیار فرمایا ،اسی لیے شام ،بصری اور یمن کے سفر کیے ،آپ کی امانت داری کی وجہ سے آپ کو "امین "کہا جاتا تھا ۔
اعلان نبوت کے بعد کی زندگی :
جب آپ کی عمر چالیس سال ہوئی ،تو آپ خلوت پسند ہو گئے ،غار حرا میں جا کر کئی کئی راتیں عبادت میں گزار دیتے ،ضرورت کے مطابق کھانا ساتھ لے جاتے تھے ،جب کھانا ختم ہو جاتا تو کبھی خود گھر سے کھانا لے آتے ،اور کبھی حضرت خدیجہ غار میں کھانا پہنچا دیتی تھی ۔
اسی غار میں آپ پر پہلی وحی نازل ہوئی ،جس میں سورۃ العلق کی پہلی پانچ آیات نازل ہوئی ،
پھر کچھ دن تک وحی نازل نہیں ہوئی ،حالانکہ آپ ﷺ وحی کے انتظار میں بے قرار تھے ،آپ ایک کئی جا رہے تھے ،کہ کسی نے آپ کو آواز دی ،آپ نے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا ،تو وحی فرشتہ جو غار میں آیا تھا ،وہ زمین و آسمان کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے ،یہ منظر دیکھ کر آپ بھی خوف طاری ہو گیا ،آپ گھر جا کر لیٹ گئے ،اور گھر والوں سے کہا مجھے کمبل اوڑھا دو،مجھے کمبل اوڑھا دو۔
آپ کمبل اوڈھ کر لیٹے ہوئے تھے ،کہ آپ ﷺ پر سورۃ المدثر کی پہلی پانچ آیات نازل ہوئی ،
يَا أَيّھا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَأَنْذِرْ (2) وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (3) وَثِيَابَكَ فَطھرْ (4) وَالرُّجْزَ فَاھجُرْ (5)
اے چادر اوڑھنے والے ،اٹھیں (اور لوگوں کواللہ کے عذاب کا)ڈر سنائیں ،اور اپنے رب کی بڑائی بیان فرمائیں ،اور اپنے لباس کو (ہمیشہ کی طرح )پاک رکھیں ،اور باتوں سے الگ رہیں ۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے آپ پر اسلام کی دعوت دینے کو لازم قرار دیا ۔
دعوت اسلام کے تین ادوار :
پہلادور :
تین برس تک آپ انتہائی پوشیدہ طور پر نہایت رازداری کے ساتھ تبلیغ اسلام کا فرض اداکرتے رہے
دوسرا دور :
جب سورۃ الشعراء کی آیت نمبر 214نازل ہوئی ،جس میں حکم دیا گیا تھا ،آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں ،تو رسول اللہﷺ نے صفا کی چوٹی پر چڑھ کر قریش کو بلایا تھا ،اور کہا تھا میں تمھیں اللہ کے عذاب سے ڈراتا ہوں ،جس پر ابو لھب نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں نازیبا کلمات بولے تھے ۔
تیسرا دور :
اعلان نبوت کے چوتھے سال ،جب سورۃ الحجر کی آیت نمبر 94نازل ہوئی ،جس میں یہ تھا ،آپ کو جو حکم دیا گیا ہے آپ اسے علی الاعلان بیان فرمائیے ۔
اس کے بعد آپ علانیہ طور پر اسلام کی تبلیغ فرمانے لگے ،اور کھلم کھلاشرک و بت پرستی کی برائی بیان کرنے لگے ۔
دعوت اسلام روکنےکی کوششیں:
کفار نے اس دعوت کو روکنے کے لیے طرح طرح کے ظلم کیے ،ہر طریقے سے اس تبلیغ کو روکنا چاہا ،مگر آپ کو اللہ کی طرف سے حکم تھا :جو حکم دیا گیا ہے وہ بیان کرو،یعنی بتوں کی برائی بیان کرو۔
پر امن مذاکرات :
اس مشن کو روکنے کے لیے ایک پرامن کمیٹی مذاکرات کے لیے ابوطالب کے پا س آئی ،اور دعوت اسلام اور بت پرستی کے خلاف رسول اللہ ﷺ کی تقریروں کی شکایت کی ،ابو طالب نے انھیں نرمی کے ساتھ سمجھا بجھا کر رخصت کر دیا ،لیکن حضور اللہ کے حکم کی وجہ سےحق و باطل میں فرق کرنے کی غرض سے ویسی ہی تقاریر کرتے رہے ۔
اس سے قریش کا غصہ اور بھی بھڑک اٹھا ،سرداران قریش ابوطالب کے پاس آئے ،اور دو ٹوک الفاظ میں کہا ،یا تو آپ درمیان سے ہٹ جائیں ،اور اپنا بھتیجا ہمارے حوالے کر دیں ،یا خود بھی اس کے ساتھ میدان میں نکلیں ،تاکہ ہم میں سے کسی ایک کا فیصلہ ہو جائے ،ابو طالب نے حضور ﷺ کو سمجھانے کی کوشش کی ،لیکن آپ نے فرمایا :اگر یہ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند بھی لا کر رکھ دیں ،تو بھی میں اس مشن سے باز نہیں آئو گا ۔
یا تو خدا اپنے دین کو غالب کر دے گا ،یا میں اس پر نثار ہو جائوں گا ۔
اعلان نبوت کا پانچواں سال :
ہجرت حبشہ :
جب کفار نے مسلمانوں پر بے حساب ظلم ڈھانا شروع کر دیے ،تو آپ نے انھیں جان بچانے کے لیے حبشہ میں جا کر پناہ لینے کا حکم دیا ۔حبشہ کا بادشاہ نجاشی حضر ت عیسی کے دین کا پابند تھا ،اور تورات وانجیل کا بہت ماہر عالم تھا ۔
پہلی مرتبہ پندرہ لوگوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی ،جبکہ دوسری مرتبہ ایک سو ایک لوگوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی ۔
اعلان نبوت کے چھٹے سال :
اعلان نبوت کے چھٹے سال حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضٖر ت عمررضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے ۔حضرت حمزہ کے اسلام لانے کے تین دن بعد حضرت عمر مسلمان ہوئے ۔
اعلان نبوت کےساتویں سال :
سوشل بائیکاٹ :
اعلان نبوت کے ساتویں سال تمام قبائل قریش نے آپس میں یہ معاہدہ کیا ،جب تک بنو ہاشم حضور کو قتل کے لیے ہمارے حوالے نہیں کرتے
الف:کوئی شخص بنو ہاشم سے شادی بیاہ نہ کرے
ب:کوئی شخص ان لوگوں سے کسی قسم کی خرید و فروخت نہ کرے
ج:کوئی شخص ان سے سلام و کلام ،میل جول نہ کرے
د:کوئی شخص ان کے پاس کھانے پینے کی کوئی چیز نہ جانے دے
اس پر تمام سرداران قریش نے دستخط کیے ،اور اسے کعبے میں لٹکادیا ۔
ابوطالب مجبور ہو کررسول اللہ اور تمام خاندان کو لے کر ا یک پہاڑ کی گھاٹی میں پناہ گزین ہوگئے ،جسے شعب ابی طالب کہتے ہیں ،ابو لھب کے سوا خاندان بنو ہاشم کے کافروں نے بھی خاندانی حمیت و پاسداری کی بنا پر حضور کا ساتھ دیا ،یہاں تین سال تک بنو ہاشم انتہائی مشقت میں رہے
پھر قریش کے کچھ رحم دل لوگوں کو ترس آیا ،تو انھوں نے اس معاہدے کو توڑنے کی تحریک چلائی ،
یہ لوگ مل کر حرم میں گئے ،اور اس معاہدے کے خلاف تقاریر کر رہے تھے ،کہ ابو طالب نے کہا :اے لوگو! میرا بھتیجا محمد کہتا ہے ،اس معاہدے کی دستاویز کو کیڑوں نے کھا لیا ہے ،البتہ اللہ کے نام کو کیڑوں نے چھوڑ دیا ہے ،تم اس معاہدے کو نکال کر دیکھ لو ،اگر میرے بھتیجے کا کہنا غلط ثابت ہوا ،تو میں اسے تمہارے حوالے کر دوں گا ،مطعم بن عدی کعبہ کے اندر گیا ،اور اس دستاویز کو اتار لایا ،سب لوگوں نے دیکھا تو اللہ کے نام کے سوا تمام دستاویز کو کیڑوں نے کھا لیا تھا ،مطعم بن عدی نے سب کے سامنے اس دستاویز کو پھاڑ کر پھینک دیا ،پھر قریش کے چند بہادر (جو کافر ہی تھے ) ہتھیار لے کر گھاٹی میں پہنچے ،اور تمام بنو ہاشم کو وہاں سے آزاد کر دیا ۔یہ اعلان نبوت کے دسویں سال کا واقعہ ہے۔
اعلان نبوت کا دسواں سال :
شق صدر:
آپ ﷺ کا سینہ مبارک چار بار چاک کیا گیا ،اور اس میں نور و حکمت کا خزینہ بھر ا گیا ۔
پہلی مرتبہ :
جب آپ حضرت حلیمہ کے گھر تھے
اسکی حکمت یہ تھی کہ ،آپ ان وسوسوں اور خیالات سے محفوظ رہیں ،جن کی وجہ سےبچے کھیل کود اور شرارتوں کی طرف مائل ہو جاتے ہیں ۔
دوسری مرتبہ :
دس سال کی عمر میں ہوا ۔
اسکی حکمت یہ تھی کہ آپ جوانی کی پُر آشوب شہوتوں کے خطرات سے بے خوف ہو جائیں
تیسری مرتبہ :
غار حرا میں ہوا ۔
اسکی حکمت یہ تھی کہ آپ وحی الہی کے عظیم بوجھ کو برداشت کر سکیں
چوتھی مرتبہ :
شب معراج کو ہوا ۔
اس کی حکمت یہ تھی کہ آپ کے قلب میں اتنی وسعت اور صلاحیت پیدا ہوجائے ،کہ آپ دیدار الہی کی تجلیوں اور کلام ربانی کی ہیبتوں اور عظمتوں کے متحمل ہو سکیں ۔
اُمی لقب :
آپ کو امی اس لیے کہتے ہیں کیونکہ آپ نے دنیا میں کسی سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا ۔
اس کی یہ حکمتیں تھیں :
تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ انھوں نے خود ہی قرآن بنا لیا ہے
تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یہ پہلی اور پرانی کتابوں کو دیکھ دیکھ کر ایسی انمول اور انقلاب آفریں باتیں کر رہے ہیں ۔
اس تحریر میں اضافے جاری ہیں، مزید کس کس موضوع پر مواد شامل کرنا چاہیے، کمنٹ میں بتائیں۔
ہماری یہ تحریریں بھی ملاحظہ فرمائیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج جسمانی تھی یا روحانی
شلوار کے پانچے کہاں رکھنا سنت ہے؟
اضافی مواد جسے ایڈجسٹ کیا جائے گا
COMMENTS