مسجد کی ٹوپی میں نماز پڑھنا
تحریر :
احسان اللہ کیانی
کچھ دن پہلے ایک پوسٹ نظر سے گزری جس پر سبز رنگ کی ایک ٹوپی کی تصویر تھی، یہ پلاسٹک سے بنی ہوئی جالی دار ٹوپی تھی، اس قسم کی ٹوپیاں عموما ہر دوسری مسجد میں ہوتی ہیں، اس تصویر کے نیچے ایک سوال لکھا ہوا تھا۔
کیا آپ یہ ٹوپی پہن کر کسی معزز محفل میں جا سکتے ہیں؟
اگر نہیں تو بارگاہ الہی میں ایسی ٹوپی پہن کر کیوں جاتے ہیں۔
اس سوال کا مقصد یہ تھا کہ بھائی! نماز میں یہ ٹوپی نہ پہنا کرو بلکہ وہ ٹوپی پہننا کرو جو آپ کسی اچھی محفل میں پہن کر جاسکتے ہو۔
بہت سے لوگ اس پوسٹ کو پڑھنے کے بعد مسجد کی ٹوپی کو پہننا چھوڑ دیں گے، ان میں سے نوے فیصد ننگے سر نماز پڑھیں گے، باقی کے دس فیصد آئندہ جیب میں اپنی ٹوپی رکھیں گے، بہت سے لوگ تو یہ پوسٹ دیکھ کر خوش ہوں گے کہ اب ٹوپی سے جان چھوٹ گئی، ہیئر سٹائل خراب نہیں ہوگا۔
آپ اوپر درج کی گئی بات سے اتفاق کرتے ہیں یا نہیں، مجھے نہیں معلوم لیکن میں تو اس بات سے اتفاق نہیں کرتا، میں اس اصول کو درست نہیں سمجھتا کہ بارگاہ الہی میں صرف وہی چیز پہن کر جانا چاہیے جو ہم کسی معزز محفل میں پہن کر جاسکتے ہیں۔
میں اس اصول کو درست اس لیے نہیں سمجھتا کیونکہ بارگاہ الہی کا معاملہ جدا ہے، وہاں ہم اپنا رنگ و روپ، لباس و حلیہ نہیں دکھانے جاتے بلکہ وہاں تو ہم نے عاجزی اور انکساری کا اظہار کرنا ہوتا ہے، اس مقصد کیلئے تو ہلکے پھلکے کپڑے ہی بہتر ہوتے ہیں، اس مناسبت سے مسجد کی ٹوپی بھی صحیح لگتی ہے۔
اگر آپ میری بات سے اتفاق نہیں کر رہے تو ایک لمحے کیلئے حاجی کا تصور کریں، جو اللہ کے گھر میں ہوتا ہے، وہاں اس کا لباس کیسا ہوتا ہے، اسے سلا ہوا لباس پہننے کی اجازت نہیں ہوتی، خوشبو لگانے کی اجازت نہیں ہوتی، ٹوپی اور عمامہ پہننے کی اجازت نہیں ہوتی، کیا اس حلیے میں انسان کسی دوسرے مقام پر جاسکتا ہے، ہرگز نہیں تو پھر مان لیجیے کہ وہ اصول بھی درست نہیں۔
مسجد کی ٹوپی میں نماز کی ممانعت کا سبب
اب اس پر بھی بات کر لیتے ہیں کہ آخر کچھ لوگ اس ٹوپی کو پہن کر نماز پڑھنے سے منع کیوں کرتے ہیں، در اصل انہیں قرآن کریم کی ایک آیت مبارکہ سے مغالطہ ہو گیا ہے۔
قرآن کریم میں ہے:
يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ
ترجمہ:
اے بنی آدم! ہر نماز کے وقت اپنی زینت کو اختیار کرو۔
(سورت الاعراف، آیت نمبر اکتیس)
اگر وہ اس آیت کے سبب نزول کو دیکھتے تو بھی انہیں معلوم ہو جاتا کہ یہ کچھ ایسے لوگوں کے متعلق نازل ہوئی تھی، جو ننگے طواف کیا کرتے تھے، انہیں اس آیت کے ذریعے منع کیا گیا اور کہا گیا کہ لباس پہن کر بیت اللہ کا طواف کیا کریں۔
(تفسیر طبری)
یعنی اس آیت میں زینت سے مراد فقط لباس ہے، عمدہ لباس نہیں ۔
اس موضوع پر تفصیل سے لکھنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ بہت سے غریب لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن کے پاس عمدہ لباس نہیں ہوتا، وہ اعلی قسم کی ٹوپی بھی نہیں خرید سکتے، ان کا خیال کریں، مسجدوں میں ایسا ہی ماحول رہنے دیں، جہاں غریب اور امیر سب ایک جیسے نظر آتے ہیں، اگر یہاں بھی عمدہ لباس والی شرط لگا دیں گے تو پھر یہاں بھی غریب کا سینہ جلتا رہے گا۔ شاید ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ ٹوپیاں مسجد میں آج تک رکھی جاتی ہیں۔
مسجد کی ٹوپی کا حکم
یہاں اس چیز کی بھی وضاحت کرتا چلو کہ مسجد کی ٹوپی میں نماز پڑھنا، جن کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے، ان کے نزدیک بھی اس کا حکم بہت ہلکا ہے، فقط مکروہ تنزیہی۔ کچھ لوگ تو آج کل اسے کچھ اس انداز میں پیش کررہے ہیں، جیسے اس کو پہن کر نماز پڑھنا حرام ہے۔
مزید یہ بھی پڑھیے:
COMMENTS