سورۃ الناس کی آخری آیت سے متعلق سوال اور میری بے عزتی :
تحریر :
احسان اللہ کیانی
آج مجھے ایک نوجوان نے میسنجر پر میسج کیا
میرا نمبر مانگتے ہوئے کہا
مجھے اپنا نمبر دیں
مجھے آپ سے کوئی سوال پوچھنا ہے
میں نے سوچا ،نمبر دوں یا نہ دوں ؟
پھر سوچا نوجوان لڑکا ہے ،میں نمبر نہیں دوں گا ،تو اسے برا لگے گا
وہ سوچے گا ،تمام مولوی متکبر ہوتے ہیں ،عوام سے بات کرنا ،انہیں اچھا نہیں لگتا
میں نے یہ سوچتے ہوئے ،اسے اپنا نمبر دے دیا
حالانکہ
اپنا نمبر دینا ،بڑا مشکل ہوتا ہے ،لوگ بہت تنگ کرتے ہیں ،آدمی ہر وقت نمبر بند بھی نہیں کر سکتا ،بعض اوقات رات کو بھی میسج یا کال کر دیتے ہیں ،سوال کا جواب جلدی نہ ملے تو بے عزت بھی کر دیتے ہیں ۔
خیر یہ باتیں چھوڑیں ،اصل بات کی طرف چلتے ہیں
میرا نمبر ان کے پاس پہنچ گیا
انہوں نے مجھے سلام کیا اور کہا
آپ سے ایک سوال پوچھنا ہے
سورۃ الناس کی آخری آیت میں (مِنَ الجنۃ والناس ) میں ہم مِنْ کے نون پر زبر کیوں پڑھتے ہیں؟
میں نے جوابا کہا
ملانے کیلئے
یعنی ن کو ل سے ملانا ہوتا ہے اس لیے زبر پڑھ دیتے ہیں
انہوں نے جوابا کہا
یہ تو کوئی بات نہ ہوئی ،اس طرح تو کوئی کچھ بھی پڑھ سکتا ہے
میں نے کہا بھائی ایسی بات نہیں ہے
دیکھیں
بعض حروف شمسیہ ہوتے ہیں اوربعض حروف قمریہ ہوتے ہیں
حروف شمسیہ میں شروع والا ال نہیں پڑھا جاتا جبکہ حروف قمریہ میں شروع والا ال پڑھا جاتا ہے
اس کی مثالیں درج ذیل ہیں
والشمس اور والقمر
پہلی مثال میں ال نہیں پڑھا جا رہا جبکہ دوسری مثال میں ال پڑھا جا رہا ہے
اسی طرح من الجنۃ میں من کو الجنۃ کے ل سے ملانا تھا
اس لیے یہاں ن پر زبر پڑھی گئی ہے
انہوں نے کہا
مطلب یہ میری چوائس ہے یعنی میری مرضی ہے
چاہے میں زیر پڑھوں یا پیش پڑھو ں ۔۔؟؟
اس سوال نے میری سوچ کا رخ بدل دیا
اور میں نے کہا نہیں بھائی
آپ اس مقام پر پیش اور زیر نہیں پڑھ سکتے
وہ بولے
تو مان لیں
یہاں کوئی اصول ہوگا
میں چپ ہو گیا ا ور میں نے کہا
میں کوئی تفسیر دیکھ کر آپ کو بتا دیتا ہوں
یا
کسی دوست سے مشورہ کر کے بتا دیتا ہوں
آج میرے کزن مجھ سے ملنے آئے ہوئے تھے ،میں انکے ساتھ ہی گھوم پھر رہا تھا
اور
ان صاحب کو میسج بھی کر رہا تھا
غالبا دو سے اڑھائی گھنٹوں بعد ان کا میسج آیا
احسان بھائی !
کچھ ملا ،اگر نہیں ملا ،تو بتا دیں،کوئی مسئلہ نہیں میں کسی اور سے پوچھ لوں گا
کوئی مسئلہ نہ آتا ہوں تو شرمندگی والی بات نہیں ہوتی
بول دیں۔میں کسی اور سے پوچھ لوں گا
پھر اسی وائس میسج میں کہتے ہیں
مجھے پتا ہے ،آپ کو نہیں ملے گا
میں نے آپ کی علمی حیثیت دیکھ لی ہے ،فیس بک پر تو آپ کی بڑی لمبی لمبی تحریریں آتیں تھیں
میں نے سوچا کیوں نا سوال پوچھ کر چیک کر لوں
آج آپ کی علمی حیثیت کا علم ہو گیا ہے
میں نے ہنستے ہوئے جوابا میسج کیا
جزاک اللہ بھائی
اگر یہ بات تھی تو پہلے ہی بتا دیتے
میں فورا علی الاعلان تسلیم کر لیتا کہ میری علمی حیثیت بہت کمزور ہے ،میرا علم ناقص ہے اورمطالعہ بہت محدود ہے
اس بے عزتی کے بعد مجھے احساس ہوا کہ یار تفاسیر میں دیکھتا ہوں
آخر مفسرین نے اس حوالے سے کیا لکھا ہے وہ کونسا نقطہ ہے جو ان کے علم میں ہے اور مجھے معلوم نہیں ہے
اس حوالے سے اردو تفاسیر میں کچھ ملنا کافی مشکل تھا
اس لیے میں نے عربی تفاسیر کو دیکھنا شروع کیا
شروع میں مختصر تفاسیر دیکھی
مثلا
تفسیر الجلالین ،تفسیر ابن عباس،تفسیر البیضاوی اور تفسیر زاد المسیر دیکھی
میرا طریقہ کار یہ تھا کہ میں ہر تفسیر کی سورۃ الناس کھولتااور آخری آیت کی تفسیر دیکھ لیتا ،اس مقام پر کسی نے بھی کچھ نہیں لکھا تھا
کیونکہ
یہ انتہائی آسان سے بات تھی
پھر میں نےبطور خاص اعراب سے متعلق تفاسیر دیکھنی شروع کیں
نحاس کی اعراب القرآن دیکھی ،عکبری کی التبیان فی اعراب القرآن دیکھی ،مصطفی درویش کی اعراب القرآن و بیانہ دیکھی،خراط کی المجتبی من مشکل اعراب القرآن دیکھی
لیکن من کے زبر والے اعراب کے متعلق کچھ نہیں ملا
یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ بعض اوقات کسی مخصوص آیت کی تفسیر آپ کو تفاسیر کی تمام کتب میں نہیں ملتی ۔اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس کے متعلق اس پوری تفسیر میں کچھ نہیں کہا گیا ہوتا
بلکہ
مفسرین کا طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی بات پہلی بار آتی ہے
تووہ تفصیل سے اس کا ذکر کر دیتے ہیں،اس کے بعد تکرار سے بچنے کیلئے اس کے متعلق کوئی بات ذکر نہیں کرتے
اب میں نے یہ تلاش کرنا شروع کیا کہ قرآن کریم کتنے مقامات پر مِنْ کے نون پر زبر آئی ہے
میں نے اس مقصد کیلئے مکتبہ شاملہ کھولا
اور اس پر من لکھ کر سرچ کر دیا،میرے سامنے دو ہزار تئیس مقامات آگئے
میں نے ان مقامات کو پڑھا اور ان مقامات کو الگ کیا جہاں من کے ن پر زبر تھی
ان میں سے چند آیات یہ ہیں
وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ
أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ
وَلَا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ
قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ
قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ
وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً
وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ إِنَّكَ إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِينَ
وَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ
مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ
وَمَا هُمْ بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ
لَئِنْ لَمْ يَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَيَغْفِرْ لَنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
میں ان آیات کی تفسیر بھی دیکھتا رہا
وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ
کی تفسیر نحاس کی اعراب القرآن سے دیکھی
تو وہاں لکھا ہوا تھا
وفتحت النون لالتقاء الساكنين
ترجمہ :
دو ساکنوں کے جمع ہونے کی وجہ سے ن پر زبر دی گئی ہے ۔
یہ سورت البقرہ کی آیت نمبر چونتیس ہے ۔
اس کا حوالہ یہ ہے
تفسیر اعراب القرآن للنحاس،ج۱،ص ۴۵،دار الکتب العلمیہ ،بیروت ،۱۴۲۱ ھ
میری علماء اور دینی طلبا سے گزارش ہے کہ وہ مکتبہ شاملہ کو چلانا ضرور سیکھیں ،یہ بہت مفید اور کارآمد سافٹ وئیر ہے ،یہ سافٹ وئیر نہ ہوتا تو شاید میں دس دن میں بھی یہ کام نہ کر سکتا ،جو میں نے ایک دن میں کر لیا ۔
وہ علماء یا طلباء جو مکتبہ شاملہ نہیں استعمال کر سکتے ،یہاں انکے پاس لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر نہیں ہے یا پھر انہیں مدرسے میں یہ رکھنے کیا اجازت نہیں ہے
میں ان کو ایک کتاب کے متعلق بتا دیتا ہوں ،جو ان کی مدد کرے گی ،اس کا نام ہے
المعجم المفہرس لالفاظ القرآن
اس کتاب میں قرآن کریم کے تمام الفاظ حروف تہجی کے اعتبار سے لکھے ہوئے ہیں ،آپ اس کے ذریعے با آسانی قرآنی الفاظ کو تلاش کرسکتے ہیں ،یہ فقط ایک جلد پر مشتمل کتاب ہے ،جس میں مکمل قرآن بھی ہے ،یہ کتاب آپ کو یہ بھی بتاتی ہے کہ یہ لفظ قرآن کریم میں کتنی بار آیا ہے ،کس کس سورت اور کس کس آیت میں آیا ہے ،ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتی ہے کہ یہ سورت مکی ہے یا مدنی ہے ۔
اس تحریر کو لکھنے کے بہت سے مقاصد تھے
پہلا مقصد :
بعض اوقات لوگ ہمارے مسائل کو بالکل نہیں سمجھتے اور تھوڑی سی تاخیر پر بھی ذلیل کر دیتے ہیں ،ان جیسے لوگوں کی وجہ سے علماء اپنا نمبر کسی کو نہیں دیتے کیونکہ بلا وجہ ذلیل ہونا تو کسی کو بھی اچھا نہیں لگتا۔
دوسرا مقصد:
یہ تھا کہ میں اپنے دینی طلباء کو یہ بتا دوں گا کہ وہ تفسیر کی کتابوں سے اپنا مطلوبہ مسئلہ کیسے حل کر سکتے ہیں
تیسرا مقصد :
یہ تھا کہ میں دینی طلباء اور علماء کو مکتبہ شاملہ کے فائدے بتا کر اس کی ترغیب دلاؤں گا ۔
چوتھا مقصد :
یہ تھا کہ میں دینی طلباء کوکتاب معجم المفہرس لالفاظ القرآن سے متعارف کروا دوں گا ۔
پانچواں مقصد :
یہ تھا کہ میں اس تحریر کو اہل علم کے سامنے پیش کروں گا وہ اس مسئلے پر اپنی رائے دیں گے ،جس سے میری غلطیوں کی اصلاح ہو جائے گی
اللہ کریم اس نوجوان کو جزائے خیر عطا فرمائے ،جو اس تحریر کا سبب بنا ۔
مزید بے عزت کرنے والے حضرات نوٹ فرما لیں
احسان اللہ کیانی کا نمبر یہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے نمبر لکھا تھا اب ہٹا دیا ہے کیونکہ اب شادی ہو چکی ہے
ہاہا
دوسرا حصہ پڑھیں جس میں آپ کو سوال کا جواب بھی مل جائے گا
سورت الناس کی آیت من الجنۃ والناس میں مِن کے نون پر زبر کیوں آتی ہے ؟
تحریر :
احسان اللہ کیانی
مجھ سے ایک بھائی نے سوال پوچھا تھا
کیا وجہ ہے کہ ہم (من الجنۃ والناس )میں مِن کے نون پر زبر پڑھتے ہیں ؟
میں نےانہیں کہا تھا
دو ساکنوں کے جمع ہونے کی وجہ سے ہم یہاں نون پر زبر پڑھ دیتے ہیں
تو بھائی نے جوابا اعتراض کیاتھا
مطلب یہ میری مرضی ہے
میں دو ساکن حروف کو ملانے کیلئے کچھ بھی پڑھ سکتا ہوں
مطلب یہاں زیر بھی پڑھ سکتا ہوں اور پیش بھی پڑھ سکتا ہوں ؟
میں نے کہا
نہیں بھائی
آپ اس جگہ زیر اور پیش نہیں پڑھ سکتے
تو انہیں نے کہا
پھر مان لیجیے
یہاں کوئی نہ کوئی اصول کار فرما ہے
میں نے کہا
چلیں
میں تفاسیرسے دیکھ کر یا دوستوں سے مشورہ کرکےآپ کو بتاؤں گا
پچھلی تحریر میں آپ کو بتایا تھا کہ میں نے کس کس تفسیر سے یہ بات تلاش کرنے کی کوشش کی تھی
مجھے یہ بات تو مل گئی تھی کہ
دو ساکنوں کو ملانے کی وجہ سےاس مقام پر ہم نون کو زبر دیتے ہیں
لیکن
اس مقام پر زیر اور پیش کیوں نہیں آتی
اس کا جواب مجھے کسی تفسیر سے نہیں ملا تھا
میں نے فیس بک پر جو تحریر شیئر کی تھی
اس کے کمنٹ میں بھی سب سے آکر میں ایک بھائی نے یہ سوال کیا تھا
بھائی!
نون پر زیر یا پیش کیوں نہیں آئی۔۔؟؟
مجھے اس کے متعلق کچھ معلوم نہیں تھا ،اس لیے میں خاموش رہا
اور
انٹرنیٹ پر اس حوالے سے سرچ کرتا رہا
مختلف کتب بھی دیکھتا رہا
لیکن
کچھ نہیں ملا
آج صبح ناشتے میں میرے ساتھ دو قاری صاحبان بیٹھے تھے
اور
تجوید و قرات کی ایک مشہورکتاب فوائد مکیہ کے حوالے سے بات کر رہے تھے
قاری صاحب نے ایک صفحہ کھول کر کہا
مجھے اس باب پر استاد صاحب سے بڑی مار پڑی تھی
میں نے باب دیکھا
تو وہ اجتماع ساکنین کا باب تھا
میں نے قاری صاحب سے کہا
قاری صاحب
یہ کتاب مجھےدیجیے
میں نے کتاب پکڑی اورکتاب کو پڑھنا شروع کر دیا
چند صفحوں بات مجھے وہی بات مل گئی ،میں جس کی تلاش میں تھا ۔
من کےنون پر زیر اور پیش کیوں نہیں آتی
یہاں دو وجوہات ذکر کی گئی تھیں
اس کتاب کی عبارت کا آسان سامفہوم یہ ہے :
زبر دینے کی وجہ یہ ہے کہ یہ کلمہ کم حروف والا ہے اور کثرت سے استعمال ہوتا ہے
اس کا تقاضا یہ ہے کہ اسے خفیف سی حرکت دی جائے
اور
(اس مقام پر خفیف حرکت) زبر ہی ہے
دوسری وجہ یہ ہے کہ
من کے میم پر پہلے ہی زیر ہے
اگر نون پر بھی زیر دی جائے گی
تو دو بھاری حرکتوں کا کم حروف والے لفظ میں جمع ہونا لازم آئے گا
(فوائدمکیہ مع لمعات شمسیہ ،ص ۱۱۸)
یہ تحریر کو لکھنے کے دو مقاصد تھے:
پہلا مقصد:
اگر آپ کو کوئی بات ٹھیک سے معلوم نہ ہو تو تو اپنی کم علمی کو تسلیم کریں ،ایسے مواقع پر الزامی جواب دے کر سامنے والے کو خاموش کرانے کی ہر گز کوشش نہ کریں ،ورنہ آپ کی علمی ترقی کا سفر رُک جائےگا ۔
مثلا
دیکھیں
اگر میں اس بھائی کو وہاں کسی طریقے سے خاموش کر ا دیتا
تو
میری طلب اور جستجو کا سلسلہ رک جاتا اور یہ بات شاید میں کبھی بھی تلاش نہ کرپاتا
دوسرا مقصد :
بعض اوقات ایسے بھی ہوتا ہے کہ جو کچھ آپ نے پڑھ رکھا ہے ،اس تمام کے تمام علم میں بعض سوالوں کا جواب نہیں ہوتا،ایسی صورت حال میں آپ غور کرکے دیکھیں
یہ سوال کس قسم کے علم سے تعلق رکھتا ہے پھر اس شعبے کے ماہرین کی کتب کا مطالعہ کریں،تو مطلوبہ سوال کا جواب انکی کتب میں مل جاتا ہے
جیسی مجھے تجوید و قرات کی ایک کتاب میں اس سوال کا جواب ملا ہے ۔
از
احسان اللہ کیانی
بارہ ۔اکتوبر ۔دو ہزار بیس
مزید یہ بھی پڑھیے:
تحریر :
احسان اللہ کیانی
آج مجھے ایک نوجوان نے میسنجر پر میسج کیا
میرا نمبر مانگتے ہوئے کہا
مجھے اپنا نمبر دیں
مجھے آپ سے کوئی سوال پوچھنا ہے
میں نے سوچا ،نمبر دوں یا نہ دوں ؟
پھر سوچا نوجوان لڑکا ہے ،میں نمبر نہیں دوں گا ،تو اسے برا لگے گا
وہ سوچے گا ،تمام مولوی متکبر ہوتے ہیں ،عوام سے بات کرنا ،انہیں اچھا نہیں لگتا
میں نے یہ سوچتے ہوئے ،اسے اپنا نمبر دے دیا
حالانکہ
اپنا نمبر دینا ،بڑا مشکل ہوتا ہے ،لوگ بہت تنگ کرتے ہیں ،آدمی ہر وقت نمبر بند بھی نہیں کر سکتا ،بعض اوقات رات کو بھی میسج یا کال کر دیتے ہیں ،سوال کا جواب جلدی نہ ملے تو بے عزت بھی کر دیتے ہیں ۔
خیر یہ باتیں چھوڑیں ،اصل بات کی طرف چلتے ہیں
میرا نمبر ان کے پاس پہنچ گیا
انہوں نے مجھے سلام کیا اور کہا
آپ سے ایک سوال پوچھنا ہے
سورۃ الناس کی آخری آیت میں (مِنَ الجنۃ والناس ) میں ہم مِنْ کے نون پر زبر کیوں پڑھتے ہیں؟
میں نے جوابا کہا
ملانے کیلئے
یعنی ن کو ل سے ملانا ہوتا ہے اس لیے زبر پڑھ دیتے ہیں
انہوں نے جوابا کہا
یہ تو کوئی بات نہ ہوئی ،اس طرح تو کوئی کچھ بھی پڑھ سکتا ہے
میں نے کہا بھائی ایسی بات نہیں ہے
دیکھیں
بعض حروف شمسیہ ہوتے ہیں اوربعض حروف قمریہ ہوتے ہیں
حروف شمسیہ میں شروع والا ال نہیں پڑھا جاتا جبکہ حروف قمریہ میں شروع والا ال پڑھا جاتا ہے
اس کی مثالیں درج ذیل ہیں
والشمس اور والقمر
پہلی مثال میں ال نہیں پڑھا جا رہا جبکہ دوسری مثال میں ال پڑھا جا رہا ہے
اسی طرح من الجنۃ میں من کو الجنۃ کے ل سے ملانا تھا
اس لیے یہاں ن پر زبر پڑھی گئی ہے
انہوں نے کہا
مطلب یہ میری چوائس ہے یعنی میری مرضی ہے
چاہے میں زیر پڑھوں یا پیش پڑھو ں ۔۔؟؟
اس سوال نے میری سوچ کا رخ بدل دیا
اور میں نے کہا نہیں بھائی
آپ اس مقام پر پیش اور زیر نہیں پڑھ سکتے
وہ بولے
تو مان لیں
یہاں کوئی اصول ہوگا
میں چپ ہو گیا ا ور میں نے کہا
میں کوئی تفسیر دیکھ کر آپ کو بتا دیتا ہوں
یا
کسی دوست سے مشورہ کر کے بتا دیتا ہوں
آج میرے کزن مجھ سے ملنے آئے ہوئے تھے ،میں انکے ساتھ ہی گھوم پھر رہا تھا
اور
ان صاحب کو میسج بھی کر رہا تھا
غالبا دو سے اڑھائی گھنٹوں بعد ان کا میسج آیا
احسان بھائی !
کچھ ملا ،اگر نہیں ملا ،تو بتا دیں،کوئی مسئلہ نہیں میں کسی اور سے پوچھ لوں گا
کوئی مسئلہ نہ آتا ہوں تو شرمندگی والی بات نہیں ہوتی
بول دیں۔میں کسی اور سے پوچھ لوں گا
پھر اسی وائس میسج میں کہتے ہیں
مجھے پتا ہے ،آپ کو نہیں ملے گا
میں نے آپ کی علمی حیثیت دیکھ لی ہے ،فیس بک پر تو آپ کی بڑی لمبی لمبی تحریریں آتیں تھیں
میں نے سوچا کیوں نا سوال پوچھ کر چیک کر لوں
آج آپ کی علمی حیثیت کا علم ہو گیا ہے
میں نے ہنستے ہوئے جوابا میسج کیا
جزاک اللہ بھائی
اگر یہ بات تھی تو پہلے ہی بتا دیتے
میں فورا علی الاعلان تسلیم کر لیتا کہ میری علمی حیثیت بہت کمزور ہے ،میرا علم ناقص ہے اورمطالعہ بہت محدود ہے
اس بے عزتی کے بعد مجھے احساس ہوا کہ یار تفاسیر میں دیکھتا ہوں
آخر مفسرین نے اس حوالے سے کیا لکھا ہے وہ کونسا نقطہ ہے جو ان کے علم میں ہے اور مجھے معلوم نہیں ہے
اس حوالے سے اردو تفاسیر میں کچھ ملنا کافی مشکل تھا
اس لیے میں نے عربی تفاسیر کو دیکھنا شروع کیا
شروع میں مختصر تفاسیر دیکھی
مثلا
تفسیر الجلالین ،تفسیر ابن عباس،تفسیر البیضاوی اور تفسیر زاد المسیر دیکھی
میرا طریقہ کار یہ تھا کہ میں ہر تفسیر کی سورۃ الناس کھولتااور آخری آیت کی تفسیر دیکھ لیتا ،اس مقام پر کسی نے بھی کچھ نہیں لکھا تھا
کیونکہ
یہ انتہائی آسان سے بات تھی
پھر میں نےبطور خاص اعراب سے متعلق تفاسیر دیکھنی شروع کیں
نحاس کی اعراب القرآن دیکھی ،عکبری کی التبیان فی اعراب القرآن دیکھی ،مصطفی درویش کی اعراب القرآن و بیانہ دیکھی،خراط کی المجتبی من مشکل اعراب القرآن دیکھی
لیکن من کے زبر والے اعراب کے متعلق کچھ نہیں ملا
یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ بعض اوقات کسی مخصوص آیت کی تفسیر آپ کو تفاسیر کی تمام کتب میں نہیں ملتی ۔اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس کے متعلق اس پوری تفسیر میں کچھ نہیں کہا گیا ہوتا
بلکہ
مفسرین کا طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی بات پہلی بار آتی ہے
تووہ تفصیل سے اس کا ذکر کر دیتے ہیں،اس کے بعد تکرار سے بچنے کیلئے اس کے متعلق کوئی بات ذکر نہیں کرتے
اب میں نے یہ تلاش کرنا شروع کیا کہ قرآن کریم کتنے مقامات پر مِنْ کے نون پر زبر آئی ہے
میں نے اس مقصد کیلئے مکتبہ شاملہ کھولا
اور اس پر من لکھ کر سرچ کر دیا،میرے سامنے دو ہزار تئیس مقامات آگئے
میں نے ان مقامات کو پڑھا اور ان مقامات کو الگ کیا جہاں من کے ن پر زبر تھی
ان میں سے چند آیات یہ ہیں
وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ
أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ
وَلَا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ
قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ
قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ
وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً
وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ إِنَّكَ إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِينَ
وَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ
مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ
وَمَا هُمْ بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ
لَئِنْ لَمْ يَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَيَغْفِرْ لَنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
میں ان آیات کی تفسیر بھی دیکھتا رہا
وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ
کی تفسیر نحاس کی اعراب القرآن سے دیکھی
تو وہاں لکھا ہوا تھا
وفتحت النون لالتقاء الساكنين
ترجمہ :
دو ساکنوں کے جمع ہونے کی وجہ سے ن پر زبر دی گئی ہے ۔
یہ سورت البقرہ کی آیت نمبر چونتیس ہے ۔
اس کا حوالہ یہ ہے
تفسیر اعراب القرآن للنحاس،ج۱،ص ۴۵،دار الکتب العلمیہ ،بیروت ،۱۴۲۱ ھ
میری علماء اور دینی طلبا سے گزارش ہے کہ وہ مکتبہ شاملہ کو چلانا ضرور سیکھیں ،یہ بہت مفید اور کارآمد سافٹ وئیر ہے ،یہ سافٹ وئیر نہ ہوتا تو شاید میں دس دن میں بھی یہ کام نہ کر سکتا ،جو میں نے ایک دن میں کر لیا ۔
وہ علماء یا طلباء جو مکتبہ شاملہ نہیں استعمال کر سکتے ،یہاں انکے پاس لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر نہیں ہے یا پھر انہیں مدرسے میں یہ رکھنے کیا اجازت نہیں ہے
میں ان کو ایک کتاب کے متعلق بتا دیتا ہوں ،جو ان کی مدد کرے گی ،اس کا نام ہے
المعجم المفہرس لالفاظ القرآن
اس کتاب میں قرآن کریم کے تمام الفاظ حروف تہجی کے اعتبار سے لکھے ہوئے ہیں ،آپ اس کے ذریعے با آسانی قرآنی الفاظ کو تلاش کرسکتے ہیں ،یہ فقط ایک جلد پر مشتمل کتاب ہے ،جس میں مکمل قرآن بھی ہے ،یہ کتاب آپ کو یہ بھی بتاتی ہے کہ یہ لفظ قرآن کریم میں کتنی بار آیا ہے ،کس کس سورت اور کس کس آیت میں آیا ہے ،ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتی ہے کہ یہ سورت مکی ہے یا مدنی ہے ۔
اس تحریر کو لکھنے کے بہت سے مقاصد تھے
پہلا مقصد :
بعض اوقات لوگ ہمارے مسائل کو بالکل نہیں سمجھتے اور تھوڑی سی تاخیر پر بھی ذلیل کر دیتے ہیں ،ان جیسے لوگوں کی وجہ سے علماء اپنا نمبر کسی کو نہیں دیتے کیونکہ بلا وجہ ذلیل ہونا تو کسی کو بھی اچھا نہیں لگتا۔
دوسرا مقصد:
یہ تھا کہ میں اپنے دینی طلباء کو یہ بتا دوں گا کہ وہ تفسیر کی کتابوں سے اپنا مطلوبہ مسئلہ کیسے حل کر سکتے ہیں
تیسرا مقصد :
یہ تھا کہ میں دینی طلباء اور علماء کو مکتبہ شاملہ کے فائدے بتا کر اس کی ترغیب دلاؤں گا ۔
چوتھا مقصد :
یہ تھا کہ میں دینی طلباء کوکتاب معجم المفہرس لالفاظ القرآن سے متعارف کروا دوں گا ۔
پانچواں مقصد :
یہ تھا کہ میں اس تحریر کو اہل علم کے سامنے پیش کروں گا وہ اس مسئلے پر اپنی رائے دیں گے ،جس سے میری غلطیوں کی اصلاح ہو جائے گی
اللہ کریم اس نوجوان کو جزائے خیر عطا فرمائے ،جو اس تحریر کا سبب بنا ۔
مزید بے عزت کرنے والے حضرات نوٹ فرما لیں
احسان اللہ کیانی کا نمبر یہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے نمبر لکھا تھا اب ہٹا دیا ہے کیونکہ اب شادی ہو چکی ہے
ہاہا
دوسرا حصہ پڑھیں جس میں آپ کو سوال کا جواب بھی مل جائے گا
سورت الناس کی آیت من الجنۃ والناس میں مِن کے نون پر زبر کیوں آتی ہے ؟
تحریر :
احسان اللہ کیانی
مجھ سے ایک بھائی نے سوال پوچھا تھا
کیا وجہ ہے کہ ہم (من الجنۃ والناس )میں مِن کے نون پر زبر پڑھتے ہیں ؟
میں نےانہیں کہا تھا
دو ساکنوں کے جمع ہونے کی وجہ سے ہم یہاں نون پر زبر پڑھ دیتے ہیں
تو بھائی نے جوابا اعتراض کیاتھا
مطلب یہ میری مرضی ہے
میں دو ساکن حروف کو ملانے کیلئے کچھ بھی پڑھ سکتا ہوں
مطلب یہاں زیر بھی پڑھ سکتا ہوں اور پیش بھی پڑھ سکتا ہوں ؟
میں نے کہا
نہیں بھائی
آپ اس جگہ زیر اور پیش نہیں پڑھ سکتے
تو انہیں نے کہا
پھر مان لیجیے
یہاں کوئی نہ کوئی اصول کار فرما ہے
میں نے کہا
چلیں
میں تفاسیرسے دیکھ کر یا دوستوں سے مشورہ کرکےآپ کو بتاؤں گا
پچھلی تحریر میں آپ کو بتایا تھا کہ میں نے کس کس تفسیر سے یہ بات تلاش کرنے کی کوشش کی تھی
مجھے یہ بات تو مل گئی تھی کہ
دو ساکنوں کو ملانے کی وجہ سےاس مقام پر ہم نون کو زبر دیتے ہیں
لیکن
اس مقام پر زیر اور پیش کیوں نہیں آتی
اس کا جواب مجھے کسی تفسیر سے نہیں ملا تھا
میں نے فیس بک پر جو تحریر شیئر کی تھی
اس کے کمنٹ میں بھی سب سے آکر میں ایک بھائی نے یہ سوال کیا تھا
بھائی!
نون پر زیر یا پیش کیوں نہیں آئی۔۔؟؟
مجھے اس کے متعلق کچھ معلوم نہیں تھا ،اس لیے میں خاموش رہا
اور
انٹرنیٹ پر اس حوالے سے سرچ کرتا رہا
مختلف کتب بھی دیکھتا رہا
لیکن
کچھ نہیں ملا
آج صبح ناشتے میں میرے ساتھ دو قاری صاحبان بیٹھے تھے
اور
تجوید و قرات کی ایک مشہورکتاب فوائد مکیہ کے حوالے سے بات کر رہے تھے
قاری صاحب نے ایک صفحہ کھول کر کہا
مجھے اس باب پر استاد صاحب سے بڑی مار پڑی تھی
میں نے باب دیکھا
تو وہ اجتماع ساکنین کا باب تھا
میں نے قاری صاحب سے کہا
قاری صاحب
یہ کتاب مجھےدیجیے
میں نے کتاب پکڑی اورکتاب کو پڑھنا شروع کر دیا
چند صفحوں بات مجھے وہی بات مل گئی ،میں جس کی تلاش میں تھا ۔
من کےنون پر زیر اور پیش کیوں نہیں آتی
یہاں دو وجوہات ذکر کی گئی تھیں
اس کتاب کی عبارت کا آسان سامفہوم یہ ہے :
زبر دینے کی وجہ یہ ہے کہ یہ کلمہ کم حروف والا ہے اور کثرت سے استعمال ہوتا ہے
اس کا تقاضا یہ ہے کہ اسے خفیف سی حرکت دی جائے
اور
(اس مقام پر خفیف حرکت) زبر ہی ہے
دوسری وجہ یہ ہے کہ
من کے میم پر پہلے ہی زیر ہے
اگر نون پر بھی زیر دی جائے گی
تو دو بھاری حرکتوں کا کم حروف والے لفظ میں جمع ہونا لازم آئے گا
(فوائدمکیہ مع لمعات شمسیہ ،ص ۱۱۸)
یہ تحریر کو لکھنے کے دو مقاصد تھے:
پہلا مقصد:
اگر آپ کو کوئی بات ٹھیک سے معلوم نہ ہو تو تو اپنی کم علمی کو تسلیم کریں ،ایسے مواقع پر الزامی جواب دے کر سامنے والے کو خاموش کرانے کی ہر گز کوشش نہ کریں ،ورنہ آپ کی علمی ترقی کا سفر رُک جائےگا ۔
مثلا
دیکھیں
اگر میں اس بھائی کو وہاں کسی طریقے سے خاموش کر ا دیتا
تو
میری طلب اور جستجو کا سلسلہ رک جاتا اور یہ بات شاید میں کبھی بھی تلاش نہ کرپاتا
دوسرا مقصد :
بعض اوقات ایسے بھی ہوتا ہے کہ جو کچھ آپ نے پڑھ رکھا ہے ،اس تمام کے تمام علم میں بعض سوالوں کا جواب نہیں ہوتا،ایسی صورت حال میں آپ غور کرکے دیکھیں
یہ سوال کس قسم کے علم سے تعلق رکھتا ہے پھر اس شعبے کے ماہرین کی کتب کا مطالعہ کریں،تو مطلوبہ سوال کا جواب انکی کتب میں مل جاتا ہے
جیسی مجھے تجوید و قرات کی ایک کتاب میں اس سوال کا جواب ملا ہے ۔
از
احسان اللہ کیانی
بارہ ۔اکتوبر ۔دو ہزار بیس
مزید یہ بھی پڑھیے:
COMMENTS