آپ بھی ذہن بدل سکتے ہیں؟
تحریر:
احسان اللہ کیانی
کل میرے ایک دوست مجھ سے کہنے لگے، کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے، آخر یہ جو دنیا بنی ہے ،اس کا مقصد کیا ہے؟
کوئی لاکھ پتی ہے، کوئی کروڑ پتی ہے، کوئی ارب پتی ہے جبکہ کسی کے پاس ایک وقت کا کھانا بھی نہیں ہے، میں خاموشی سے سن رہا تھا اور دل ہی دل میں یہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ آخر یہ سوال ان کے ذہن میں کہاں سے آیا ہے؟
میں مختلف زاویوں سے سوچ رہا تھا، مختلف قضیوں کو ملا کر کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کررہا تھا پھر تھوڑی دیر بعد وہ خود ہی بول پڑے، کہتے ہیں، احسان بھائی پتا ہے، یہ سوال میرے ذہن میں کہاں سے آیا ہے، میں نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھی تھی، جس میں بہت سے غریب لوگوں کی تصویریں تھیں، اس کے اوپر ایک جملہ لکھا تھا، یا رب! تیرے گھر کی مہنگی قالینیں میری غربت کا مذاق اڑاتی ہیں۔
میں اس وقت کچھ نہیں بول سکا کیونکہ اچانک موضوع بدل گیا اور ہم دوسرے موضوع پر بات کرنے لگے اور میری عادت ہے اگر موقع مناسب نہ ہوتو میں فورا رد عمل نہیں دیتا، مناسب موقع کا انتظار کر لیتا ہوں، آج صبح میں نے سوچا، میں اس پر ایک تحریر لکھ دیتا ہوں، ان کو بھی بھیج دوں گا اور باقی دوستوں کو بھی فائدہ ہو جائے گا۔
اس سوال کا جواب تو آگے آرہا ہے لیکن میں ابھی آپ کی توجہ ایک اہم بات کی طرف کروانا چاہتا ہوں، دیکھیں صرف ایک پوسٹ نے کیسے ایک فتنہ گر سوال کو جنم دیا،جس کو یہ صاحب اللہ جانے کتنے لوگوں کے سامنے مزید بیان کریں گے، ممکن ہے، جس نے یہ پوسٹ کی ہو، اس پر ایک لائیک اور ایک شیئر بھی نہ آیا ہو لیکن وہ پوسٹ اپنا کام خاموشی سے کر چکی تھی۔
میں اپنے مسلمان بھائیوں سے کہتا ہوں، دیکھیں آپکی بھی ہر پوسٹ لوگوں کے ذہن پر ایک خاص تاثر چھوڑتی ہے،اس لیے آپ بھی اسلام کی حمایت میں پوسٹیں کرتے رہا کریں، آپ اسکی پرواہ بالکل نہ کریں، اس پر لائیک آتے ہیں یا نہیں، آپ کے ذمے حق کا پیغام پہنچانا ہے، اسے کوئی پسند کرے یا نہ کرے، اس کی آپ کو پرواہ نہیں ہونی چاہیے، البتہ یہ ضروری ہے کہ آپ کا انداز انتہائی شائستہ ہونا چاہیے۔
اب اصل سوال کی طرف چلتے ہیں،در اصل ان کے سوال کا مطلب یہ تھا کہ اللہ جب سب کا خالق ہے، تو پھر سب کو برابر ملنا چاہیے تھا،کوئی غریب اور کوئی امیر کیوں ہے؟
بظاہر سوال بہت جاندار ہے کیونکہ اللہ تعالی عدل و انصاف کرنے والا ہے، اس کو سب مخلوق کو برابر دینا چاہیے تھا، لیکن یہ سوال اس وقت بالکل بے وقعت ہو جاتا ہے، جب ہم آخرت کی طرف دیکھتے ہیں یا دنیا کی تخلیق کے مقصد کو دیکھتے ہیں، کیونکہ یہ دنیا تو فقط امتحان کیلئے عارضی طور پر بنائی گئی ہے، یہاں سب کو امتحان کیلئے بھیجا گیا ہے، امتحان کے بعد رزلٹ اور بدلہ قیامت کے دن ملے گا۔
اس لیے اس دنیا میں
کسی کو مال دے کر آزمایا جا رہا ہے، کسی کو بھوک اور بے روزگاری سے آزمایا جا رہا ہے
کسی کو عزت دے کر اور کسی کو ذلیل کر آزمایا جا رہا ہے
کسی کو حسن دے کر اور کسی سے حسن لے کر آزمایا جا رہا ہے
کسی کو طاقت دے کر اور کسی سے طاقت لے کر آزمایا جا رہا ہے
کسی کو صحت دے کر اور کسی کو بیماری میں مبتلا کرکے آزمایا جا رہا ہے
جیسے پرائمری، مڈل، میٹرک، انٹر، بیچلر ،ماسٹر اور پی ایچ ڈی کے امتحانات میں فرق ہوتا ہے، ایسے ہی ریڑھی والے اور بحریہ ٹاؤن کے مالک کے امتحان میں قیامت کے دن فرق ہوگا۔
ریڑھی والے کا حساب آسان اور بحریہ ٹاؤن کے مالک کا امتحان مشکل ہوگا
مثال کے طور پر
ملک ریاض صاحب سے پوچھا جائے گا
کیا ہر سال اپنے اربوں روپوں میں سے ڈھائی فیصد مال نکال کر غریبوں کو زکوۃ دیتے تھے یا نہیں؟
تمہاری کون کونسی زمینیں جائز اور کون کونسی ناجائز تھی؟
تم نے کس کس کی زمین پر کس کس طرح قبضہ کیا تھا؟
تم بحریہ ملازمین کے ساتھ کیسا سلوک کرتے تھے؟
یہ بھی پوچھا جائے گا، تم نے پیسہ کہاں کہاں سے اور کیسے کیسے کمایا تھا اور اسے کیسے کیسے اور کہاں کہاں خرچ کیا تھا؟
یہ بھی پوچھا جائے گا
بحریہ دستر خوان اللہ کیلئے تھا یا ریاکاری کیلئے؟
اس لیے پریشان نہ ہوں، یہاں آپ پریشان ہیں، وہاں امیر پریشان ہوں گے کیونکہ امیروں کا حساب بہت مشکل اور طویل ہوگا، جبکہ اس کے برعکس غریبوں کا حساب آسان اور جلدی ہوگا ،یہی وجہ ہے کہ وہ حدیث شریف کے مطابق امیروں سے بہت پہلےجنت میں چلے جائیں گے۔
اگر ہم اس دنیا کی تخلیق کا مقصد ذہن میں رکھیں، تو پھر یہ سوالات ہمیں تنگ نہیں کریں گے
نوٹ:
ملک ریاض صاحب کا نام فقط مشہور مال دار آدمی ہونے کی وجہ سے لکھا گیا ہے، ورنہ اگر ذاتی رائے پوچھی جائے تو ہم انہیں بقیہ مال داروں کی نسبت بہت اچھا سمجھتے ہیں۔
مزید یہ بھی پڑھیے:
تحریر:
احسان اللہ کیانی
کل میرے ایک دوست مجھ سے کہنے لگے، کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے، آخر یہ جو دنیا بنی ہے ،اس کا مقصد کیا ہے؟
کوئی لاکھ پتی ہے، کوئی کروڑ پتی ہے، کوئی ارب پتی ہے جبکہ کسی کے پاس ایک وقت کا کھانا بھی نہیں ہے، میں خاموشی سے سن رہا تھا اور دل ہی دل میں یہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ آخر یہ سوال ان کے ذہن میں کہاں سے آیا ہے؟
میں مختلف زاویوں سے سوچ رہا تھا، مختلف قضیوں کو ملا کر کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کررہا تھا پھر تھوڑی دیر بعد وہ خود ہی بول پڑے، کہتے ہیں، احسان بھائی پتا ہے، یہ سوال میرے ذہن میں کہاں سے آیا ہے، میں نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھی تھی، جس میں بہت سے غریب لوگوں کی تصویریں تھیں، اس کے اوپر ایک جملہ لکھا تھا، یا رب! تیرے گھر کی مہنگی قالینیں میری غربت کا مذاق اڑاتی ہیں۔
میں اس وقت کچھ نہیں بول سکا کیونکہ اچانک موضوع بدل گیا اور ہم دوسرے موضوع پر بات کرنے لگے اور میری عادت ہے اگر موقع مناسب نہ ہوتو میں فورا رد عمل نہیں دیتا، مناسب موقع کا انتظار کر لیتا ہوں، آج صبح میں نے سوچا، میں اس پر ایک تحریر لکھ دیتا ہوں، ان کو بھی بھیج دوں گا اور باقی دوستوں کو بھی فائدہ ہو جائے گا۔
اس سوال کا جواب تو آگے آرہا ہے لیکن میں ابھی آپ کی توجہ ایک اہم بات کی طرف کروانا چاہتا ہوں، دیکھیں صرف ایک پوسٹ نے کیسے ایک فتنہ گر سوال کو جنم دیا،جس کو یہ صاحب اللہ جانے کتنے لوگوں کے سامنے مزید بیان کریں گے، ممکن ہے، جس نے یہ پوسٹ کی ہو، اس پر ایک لائیک اور ایک شیئر بھی نہ آیا ہو لیکن وہ پوسٹ اپنا کام خاموشی سے کر چکی تھی۔
میں اپنے مسلمان بھائیوں سے کہتا ہوں، دیکھیں آپکی بھی ہر پوسٹ لوگوں کے ذہن پر ایک خاص تاثر چھوڑتی ہے،اس لیے آپ بھی اسلام کی حمایت میں پوسٹیں کرتے رہا کریں، آپ اسکی پرواہ بالکل نہ کریں، اس پر لائیک آتے ہیں یا نہیں، آپ کے ذمے حق کا پیغام پہنچانا ہے، اسے کوئی پسند کرے یا نہ کرے، اس کی آپ کو پرواہ نہیں ہونی چاہیے، البتہ یہ ضروری ہے کہ آپ کا انداز انتہائی شائستہ ہونا چاہیے۔
اب اصل سوال کی طرف چلتے ہیں،در اصل ان کے سوال کا مطلب یہ تھا کہ اللہ جب سب کا خالق ہے، تو پھر سب کو برابر ملنا چاہیے تھا،کوئی غریب اور کوئی امیر کیوں ہے؟
بظاہر سوال بہت جاندار ہے کیونکہ اللہ تعالی عدل و انصاف کرنے والا ہے، اس کو سب مخلوق کو برابر دینا چاہیے تھا، لیکن یہ سوال اس وقت بالکل بے وقعت ہو جاتا ہے، جب ہم آخرت کی طرف دیکھتے ہیں یا دنیا کی تخلیق کے مقصد کو دیکھتے ہیں، کیونکہ یہ دنیا تو فقط امتحان کیلئے عارضی طور پر بنائی گئی ہے، یہاں سب کو امتحان کیلئے بھیجا گیا ہے، امتحان کے بعد رزلٹ اور بدلہ قیامت کے دن ملے گا۔
اس لیے اس دنیا میں
کسی کو مال دے کر آزمایا جا رہا ہے، کسی کو بھوک اور بے روزگاری سے آزمایا جا رہا ہے
کسی کو عزت دے کر اور کسی کو ذلیل کر آزمایا جا رہا ہے
کسی کو حسن دے کر اور کسی سے حسن لے کر آزمایا جا رہا ہے
کسی کو طاقت دے کر اور کسی سے طاقت لے کر آزمایا جا رہا ہے
کسی کو صحت دے کر اور کسی کو بیماری میں مبتلا کرکے آزمایا جا رہا ہے
جیسے پرائمری، مڈل، میٹرک، انٹر، بیچلر ،ماسٹر اور پی ایچ ڈی کے امتحانات میں فرق ہوتا ہے، ایسے ہی ریڑھی والے اور بحریہ ٹاؤن کے مالک کے امتحان میں قیامت کے دن فرق ہوگا۔
ریڑھی والے کا حساب آسان اور بحریہ ٹاؤن کے مالک کا امتحان مشکل ہوگا
مثال کے طور پر
ملک ریاض صاحب سے پوچھا جائے گا
کیا ہر سال اپنے اربوں روپوں میں سے ڈھائی فیصد مال نکال کر غریبوں کو زکوۃ دیتے تھے یا نہیں؟
تمہاری کون کونسی زمینیں جائز اور کون کونسی ناجائز تھی؟
تم نے کس کس کی زمین پر کس کس طرح قبضہ کیا تھا؟
تم بحریہ ملازمین کے ساتھ کیسا سلوک کرتے تھے؟
یہ بھی پوچھا جائے گا، تم نے پیسہ کہاں کہاں سے اور کیسے کیسے کمایا تھا اور اسے کیسے کیسے اور کہاں کہاں خرچ کیا تھا؟
یہ بھی پوچھا جائے گا
بحریہ دستر خوان اللہ کیلئے تھا یا ریاکاری کیلئے؟
اس لیے پریشان نہ ہوں، یہاں آپ پریشان ہیں، وہاں امیر پریشان ہوں گے کیونکہ امیروں کا حساب بہت مشکل اور طویل ہوگا، جبکہ اس کے برعکس غریبوں کا حساب آسان اور جلدی ہوگا ،یہی وجہ ہے کہ وہ حدیث شریف کے مطابق امیروں سے بہت پہلےجنت میں چلے جائیں گے۔
اگر ہم اس دنیا کی تخلیق کا مقصد ذہن میں رکھیں، تو پھر یہ سوالات ہمیں تنگ نہیں کریں گے
نوٹ:
ملک ریاض صاحب کا نام فقط مشہور مال دار آدمی ہونے کی وجہ سے لکھا گیا ہے، ورنہ اگر ذاتی رائے پوچھی جائے تو ہم انہیں بقیہ مال داروں کی نسبت بہت اچھا سمجھتے ہیں۔
مزید یہ بھی پڑھیے:
COMMENTS