سوال :
ایک نعت ہے، جسے مشہور نعت خواں ذوالفقار علی نقشبندی صاحب نے پڑھا ہے، در نبی پر پڑا رہوں گا ،پڑے ہی رہنے سے کام ہوگا، اس میں ایک شعر ہے، خلاف معشوق نہ کچھ ہوا ہے نہ کوئی عاشق سے کام ہوگا، خدا بھی ہوگا ادھر ہی اے دل جدھر وہ جانے تمام ہوگا، اس میں اللہ تعالی کو عاشق اور حضور کو معشوق کہا گیا ہے، ایسا کہنا شریعت کی نظر میں کیسا ہے؟
ایک نعت ہے، جسے مشہور نعت خواں ذوالفقار علی نقشبندی صاحب نے پڑھا ہے، در نبی پر پڑا رہوں گا ،پڑے ہی رہنے سے کام ہوگا، اس میں ایک شعر ہے، خلاف معشوق نہ کچھ ہوا ہے نہ کوئی عاشق سے کام ہوگا، خدا بھی ہوگا ادھر ہی اے دل جدھر وہ جانے تمام ہوگا، اس میں اللہ تعالی کو عاشق اور حضور کو معشوق کہا گیا ہے، ایسا کہنا شریعت کی نظر میں کیسا ہے؟
Dar e Nabi par para rahon ga naat youtube video
جواب :
اللہ کو عاشق کہنا ناجائز و حرام ہے
کیونکہ
عشق کے معنی اللہ تعالی کے حق میں محال قطعی ہیں۔
یہ لفظ قرآن یا حدیث میں اللہ تعالی کیلئے استعمال نہیں ہوا، اس لیے اس کے معنی میں خرابی ہی اس کے ممنوع ہونے کیلئے کافی ہے۔
علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
مجرد ایھام المعنی المحال کاف فی المنع
ترجمہ:
صرف معنی محال کا وہم ہوجانا بھی (کسی لفظ کی) ممانعت کیلئے کافی ہے۔
(رد المحتار علی الدر المختار)
نعت خواں اور شعراء حضرات کو چاہیے کہ اللہ تعالی کیلئے وہی الفاظ استعمال کریں جو اللہ تعالی نے خود اپنی ذات کیلئے استعمال کیے ہیں، قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اپنے لیے محبت کا لفظ استعمال کیا ہے، اس لیے ہمیں بھی عشق کے بجائے اللہ تعالی کیلئے محبت کا لفظ ہی استعمال کرنا چاہیے۔
قرآن کریم میں ہے:
یحبھم و یحبونہ
ترجمہ:
اللہ تعالی ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اللہ تعالی سے محبت کرتے ہیں
اس لیے ہماری رائے یہ ہے کہ اللہ کو عاشق کے بجائے مُحِب یعنی محبت کرنے والا کہنا چاہیے۔
اللہ تعالی ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اللہ تعالی سے محبت کرتے ہیں
اس لیے ہماری رائے یہ ہے کہ اللہ کو عاشق کے بجائے مُحِب یعنی محبت کرنے والا کہنا چاہیے۔
از
احسان اللہ کیانی
COMMENTS