سوال:
ہر مسلک اورفرقے کے فتوے الگ الگ ہیں ،ایسی صورت حال میں عام آدمی کو کیا کرنا چاہیے؟
جواب :
ایسی صورت حال میں عام آدمی کو چاہیے کہ وہ اس فتوی پر عمل کرے جس میں زیادہ احتیاط ہو ۔
میں یہاں آپ کی آسانی کیلئے دو مثالیں پیش کر دیتا ہوں
پہلی مثال :
کچھ علماء کرام کے نزدیک پرائز بانڈ جائز ہے جبکہ کچھ علمائے کرام اسے حرام سمجھتے ہیں۔
ایسی صورت میں عوام کو چاہیے کہ وہ اسے ناجائز ہی سمجھیں اور اس سے بچ کر رہیں
دوسری مثال :
کچھ علمائے کرام کے نزدیک سجدے کی حالت میں زمین سے دونوں پاؤں اٹھ جائیں تو نماز ٹوٹ جاتی ہے جبکہ کچھ علمائے کرام کے نزدیک اس طرح نماز نہیں ٹوٹتی۔
ایسی صورت حال میں عوام کو چاہیے کہ وہ سجد ہ کی حالت میں ہرگز زمین سےپاؤں نہ اٹھائیں،اگر کبھی بلاعذر اٹھ جائیں تو نماز دوبارہ ادا کریں
میں نے یہاں دو مثالیں بیان کی ہیں ،آپ اس اصول پر درجنوں بلکہ سینکڑوں احکام کو قیاس کر سکتے ہیں ۔
یاد رہے
یہ مسئلہ صرف عوام کیلئے ہی نہیں ہے بلکہ خواص کو بھی اس پر عمل کرنا چاہیے
کیونکہ
حدیث شریف میں آتا ہے:
حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے ،ا ن کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں ،انہیں اکثر لوگ نہیں جانتے ،جو شبھات والی چیزوں سے خود کو بچائے گا وہی اپنے دین کو بچاسکے گا ۔
حدیث شریف کے اصل الفاظ یہ ہیں :
إِنَّ الْحَلَالَ بَیِّنٌ، وَإِنَّ الْحَرَامَ بَیِّنٌ، وَبَیْنَہُمَا مُشْتَبِہَاتٌ لَا یَعْلَمُہُنَّ کَثِیرٌ مِنَ النَّاسِ،فَمَنِ اتَّقَی الشُّبُہَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِینِہِ
(یہ حدیث شریف صحیح مسلم میں ہے اور باب کا نام ہے ،باب اخذ الحلال و ترک الشبھات )
یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ جو شبہ والی چیزوں سے نہیں بچتا وہ حرام میں مبتلا ہو جاتا ہے
اس حوالے سے حدیث شریف میں ہے :
جو شبھات پر عمل کرتا ہے وہ حرام میں پڑ جاتا ہے
وَمَنْ وَقَعَ فِی الشُّبُہَاتِ وَقَعَ فِی الْحَرَامِ
(یہ حدیث شریف بھی صحیح مسلم میں ہے اور اس کا باب ہے ،باب اخذ الحلال و ترک الشبھات )
از
احسان اللہ کیانی
مزید یہ بھی پڑھیے:
COMMENTS