حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا تعارف
از
احسان اللہ کیانی
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کون تھے ؟
جواب :
آپ نبی کریم ﷺ کے مشہور خلفاء میں سے ایک تھے ۔
آپکی کنیت کیا تھی ؟
جواب :
زمانہ جاہلیت میں آپکی کنیت ابو عمرو تھی جبکہ زمانہ اسلام میں آپ کو ابو عبداللہ کہا جاتا تھا
اسکی وجہ یہ ہے
نبی کریم ﷺ کی بیٹی حضرت رقیہ سے آپ کا ایک بیٹا ہوا تھا
جس کا نام عبداللہ تھا
اسی کی وجہ سےا ٓپ کو ابو عبد اللہ کی کنیت سے پکارا گیا ۔
از
احسان اللہ کیانی
کون
سوال :حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کون تھے ؟
جواب :
آپ نبی کریم ﷺ کے مشہور خلفاء میں سے ایک تھے ۔
کنیت
سوال :آپکی کنیت کیا تھی ؟
جواب :
زمانہ جاہلیت میں آپکی کنیت ابو عمرو تھی جبکہ زمانہ اسلام میں آپ کو ابو عبداللہ کہا جاتا تھا
اسکی وجہ یہ ہے
نبی کریم ﷺ کی بیٹی حضرت رقیہ سے آپ کا ایک بیٹا ہوا تھا
جس کا نام عبداللہ تھا
اسی کی وجہ سےا ٓپ کو ابو عبد اللہ کی کنیت سے پکارا گیا ۔
قبول اسلام
سوال:حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کیسے اسلام قبول کیا تھا ؟
جواب :
آپ رضی اللہ عنہ خود بیان فرماتے ہیں کہ ہم ملک شام سے آرہے تھے راستے میں ہمیں ایک پکارنے والے نے کہا
اے سونے والو! ہوا کی رفتار سے چلو کیونکہ مکہ میں جناب احمد تشریف لاچکے ہیں حضرت عثمان فرماتے ہیں
جب ہم مکہ آئے، تو معلوم ہوا کہ یہ آپ ہی کی خبر تھی ۔ تو آپ اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ نبی کریمﷺ کے پاس آئے
آپ ﷺنے دونوں پر اسلام پیش کیا، انہیں قرآن کریم پڑھ کر سنایا، حقوق اسلام سے آگاہ کیا اور اللہ تعالی کی جانب سے بزرگی کا وعدہ کیا تو توان دونوں حضرات نے اسلام قبول کر لیا ۔
دارارقم سے پہلے
سوال:حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے دار ارقم میں داخل ہونے کے بعد ایمان لائے تھے یا اس سے پہلے ۔
جواب :
آپ رضی اللہ عنہ دار ارقم میں داخلے سے پہلے ایمان لے آئے تھے ۔
مشکلات
سوال :کیا اسلام قبول کرنے کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا ؟
جواب :
جی ہاں
ان کے چچا حکم بن ابی العاص کو جب معلوم ہوا کہ آپ نے اسلام قبول کر لیا ہے تو اس نے آپ کو رسیوں سے باندھ دیا
اور کہا میں اس وقت تک تمہیں نہیں کھولوں گا جب تک تم اس نئے دین سے پھر نہیں جاتے ۔
ہجرت حبشہ
سوال:کیا حضرت عثمان نے حبشہ کی طرف بھی ہجر ت کی تھی ؟
جواب :
جی ہاں
آپ نے مکہ سے حبشہ کی طرف ایک بار نہیں بلکہ دو بار ہجرت کی تھی دونوں مرتبہ آپ کی بیوی حضرت رقیہ بنت رسول آپ کے ساتھ تھیں ۔
بدر میں شرکت
سوال :کیا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بد ر میں شریک ہوئے تھے ؟
جواب :
آپ براہ راست تو جنگ بد ر میں شریک نہیں ہو سکے کیونکہ جب نبی کریم ﷺ بد ر کیلئے روانہ ہورہے تھے
تو اس وقت نبی کریم ﷺ کی بیٹی حضرت رقیہ بیمار تھیں، آپﷺ نے انکی تیمارداری کیلئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں ہی چھوڑ دیا تھا لیکن اسکے باوجود نبی کریم ﷺ حضرت عثمان کو بدر والوں میں شمار فرمایا تھا ۔
دو بیٹیوں سے نکاح
سوال :کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دو بیٹیاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں، کیا یہ بات سچ ہے ؟
جواب :
جی ہاں
یہ بات سچ ہے ۔
بیویوں کے نام
سوال :رسول اللہ ﷺ کی کون کونسی دو بیٹیاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں ؟
جواب :
رسول اللہ ﷺ کی جو دو صاحبزادیاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں، انکے نام یہ ہیں، حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم ۔
بیک وقت
سوال :کیا یہ دونوں بیک وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں ؟
جواب :
نہیں ایسا نہیں تھا، بیک وقت دو بہنوں کا نکاح کسی ایک آدمی سے جائز بھی نہیں ہے ۔
پہلے حضرت عثمان کا نکاح حضرت رقیہ سے ہوا تھا، وہ بدر کے واقعے کے دوران بیماری کیوجہ سے فوت ہوگئی تو نبی کریم ﷺ نے انکی وفات کے بعد اپنی دوسری بیٹی حضرت ام کلثوم کا نکاح حضرت عثمان سے کر دیا تھا ۔
حضور مزید کیلئے بھی تیار تھے
سوال :
کیا یہ بات سچ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا، اگر میں کوئی اور بیٹی بھی ہوتی تو میں اس کا نکاح عثمان سے کر دیتا ؟
جواب :
جی ہاں
یہ بات بالکل درست ہے آپ ﷺ نے ایسے فرمایا تھا ۔
توجہ طلب :
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کتنے اچھے اخلاق اور اوصاف کے مالک تھے ۔
کیا نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی میں کبھی حضرت عثمان کو اپنا خلیفہ اور نائب بنایا تھا؟
جواب :
جی ہاں
غزوہ ذات الرقاع اور غزوہ غطفان کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے حضرت عثمان کو مدینہ میں اپنا خلیفہ اور نائب مقرر فرمایا تھا۔
کیا وجہ ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے کم احادیث مروی ہیں ؟
جواب :
آپ رضی اللہ عنہ حدیث بیان کرنے کے حوالے بھی محتاط تھے، آپ ہمیشہ ڈرتے رہتے تھے کہ کئی کوئی غلطی نہ ہو جائے، اس لیے آپ سے بہت کم احادیث مروی ہیں۔
حضرت عثمان سے ٹوٹل کتنی احادیث مروی ہیں ؟
جواب :
آپ سے کل ایک سو چھیالیس احادیث مروی ہیں
جن میں سے صرف تین متفق علیہ ہیں
یعنی بخاری اور مسلم میں ہیں جبکہ آٹھ صرف بخاری میں اور پانچ صرف مسلم میں ہیں ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا حلیہ کیساتھا ؟
جواب :
آپ رضی اللہ عنہ کا قد نہ زیادہ بلند تھا نہ زیادہ پست تھا
یعنی آپ درمیانے قد والے تھے
آپکی جلد نرم اور خوبصوت تھی
آپ کی داڑھی گھنی اور بڑی تھی
آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان فاصلہ زیادہ تھا
آپ کے سر کے بال گھنے تھے۔
کیا یہ بات سچ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا، اگر میں کوئی اور بیٹی بھی ہوتی تو میں اس کا نکاح عثمان سے کر دیتا ؟
جواب :
جی ہاں
یہ بات بالکل درست ہے آپ ﷺ نے ایسے فرمایا تھا ۔
توجہ طلب :
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کتنے اچھے اخلاق اور اوصاف کے مالک تھے ۔
نائب اور خلیفہ
سوال :کیا نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی میں کبھی حضرت عثمان کو اپنا خلیفہ اور نائب بنایا تھا؟
جواب :
جی ہاں
غزوہ ذات الرقاع اور غزوہ غطفان کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے حضرت عثمان کو مدینہ میں اپنا خلیفہ اور نائب مقرر فرمایا تھا۔
کم احادیث کا سبب
سوال:کیا وجہ ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے کم احادیث مروی ہیں ؟
جواب :
آپ رضی اللہ عنہ حدیث بیان کرنے کے حوالے بھی محتاط تھے، آپ ہمیشہ ڈرتے رہتے تھے کہ کئی کوئی غلطی نہ ہو جائے، اس لیے آپ سے بہت کم احادیث مروی ہیں۔
مروی احادیث کی تعداد
سوال:حضرت عثمان سے ٹوٹل کتنی احادیث مروی ہیں ؟
جواب :
آپ سے کل ایک سو چھیالیس احادیث مروی ہیں
جن میں سے صرف تین متفق علیہ ہیں
یعنی بخاری اور مسلم میں ہیں جبکہ آٹھ صرف بخاری میں اور پانچ صرف مسلم میں ہیں ۔
حلیہ
سوال :حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا حلیہ کیساتھا ؟
جواب :
آپ رضی اللہ عنہ کا قد نہ زیادہ بلند تھا نہ زیادہ پست تھا
یعنی آپ درمیانے قد والے تھے
آپکی جلد نرم اور خوبصوت تھی
آپ کی داڑھی گھنی اور بڑی تھی
آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان فاصلہ زیادہ تھا
آپ کے سر کے بال گھنے تھے۔
دانتوں میں سونے کا تار
سوال :
کیا یہ بات درست ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اپنے دانتوں کو سونے کی تار سے باندھا کرتے تھے ؟
جواب :
جی ہاں، روایات میں یہ بات موجود ہے، آپ اپنے دانتوں کو سونے کی تار سے باندھا کرتے تھے ۔
سوال :
کیا سونے کا استعمال مردوں پر جائز ہے ؟
جواب :
ہر گز جائز نہیں ہے لیکن بعض شدید مجبوریوں میں نبی کریم ﷺ نے خود بھی اس کے استعمال کی اجازت دی ہے
جیسا کہ ترمذی شریف میں ہے کہ ایک جنگ میں ایک شخص کی ناک کٹ گئی، اس نے چاندی کی ناک لگوائی تو اس میں بدبو پیدا ہو گئی، اس نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی تو آپ ﷺنے انہیں سونے کی ناک لگوانے کی اجازت دی کیونکہ سونے میں بدبو پیدا نہیں ہوتی۔
توجہ طلب:
اس زمانے میں کمزور اور ہلتے دانتوں کی حفاظت کا کوئی اور ذریعہ نہیں تھا، اس لیے بعض صحابہ نے اپنے دانتوں کو
سونے کی تاروں سے باندھ رکھا تھا لیکن آج کل اس کے متبادل حل موجود ہیں، اس لیے آج کل سونے کی تاروں کو استعمال نہ کرنا بہتر ہے۔
کیا یہ واقعہ سچ ہے کہ حضرت عثمان رات کے وقت کسی خادم کو نہیں اٹھاتے تھے ؟
جواب :
جی ہاں
یہ بات طبقات ابن سعد میں ہےکہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ رات کے وقت تہجد کیلئے اٹھتے تو کسی خادم کو نہیں اٹھاتے تھے، اس وقت کے سارے انتظامات خود ہی کر لیا کرتے تھے، ان سے کہا گیا، جب آپ کے اتنے خادم موجود ہیں تو آپ انہیں کیوں نہیں حکم دیتے کہ وہ یہ تمام انتظامات کر دیں، آپ نے فرمایا، یہ انکے آرام کا وقت ہے، مجھے انہیں اٹھا نا اچھا نہیں لگتا ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے، جب وہ اپنے خادموں کو رات کے وقت نہیں اٹھاتے تھے تو یقینا اپنی بیوی کو بھی اپنی کسی ضرورت کیوجہ سے بیدا ر نہیں کرتے ہوں گے، ایسا معلوم ہوتا ہے، ان جیسے ہی اوصاف تھے، جن کی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا، اگر میری کوئی اوربیٹی بھی ہوتی تو میں اس کا نکاح بھی عثمان سے کر دیتا ۔
کیا یہ بات درست ہے کہ حضرت عثمان اس امت کے سب سےزیادہ حیاء دار شخص تھے ؟
جواب :
جی ہا ں
انکے متعلق نبی کریم ﷺ نے خود یہ فرمایا ہے، عثمان میری امت کے سب سے زیادہ حیاء دار آدمی ہیں ۔
حضرت عثمان کا کاروبار کیا تھا ؟
جواب :
آپ تاجر تھے، آپ اپنا مال شرکت پر دے دیا کرتے تھے، یعنی وہ کہہ دیتے تھے، میرا مال ہے اس سے کماؤ اور نفع آدھا آدھا کر لیں گے ۔
حضرت عثمان کا مسلمانوں کے خلیفہ کیلئے انتخاب کیسےہوا تھا ؟
جواب :
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے لوگ کہتے تھے، آپ اپنی زندگی میں ہی کسی کو خلیفہ مقرر کر جائیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس سے ہمیشہ انکار کرتے تھے، ایک مرتبہ آپ نے منبر پر فرمایا، اگر میں مرجاؤں تو یہ حکومت ان چھ آدمیوں کے سپرد ہے، جن سے رسول اللہ ﷺ وصال تک راضی تھے، پھر آپ نے ان کے نام ذکر کیے، حضرت علی ،حضرت زبیر بن عوام ،حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت عثمان بن عفان ،حضرت طلحہ بن عبید اللہ اور حضرت سعد بن مالک ۔
آپ نے ساتھ کچھ اصول بھی بیان کر دیے، آپ نے فرمایا، اگر ان چھ میں سے دو کے رائے مختلف اور چار کے رائے مختلف ہو تو تم اکثر کی رائے کے مطابق فیصلہ کرنا، اس طرح اگر تین تین کے رائے متفق ہو جائے تو پھر عبد الرحمن بن عوف کو فیصلے کا اختیار دینا، معاملہ ایسا ہوا کہ اس چھ رکنی کمیٹی میں کسی ایک پر اتفاق رائے نہ ہوسکا، انہوں نے معاملہ حضرت عبد الرحمن بن عوف کے سپرد کر دیا، حضرت عبد الرحمن نے تین دن سوچ و بچار کیا، عوام و خواص سے مشورے کیے بالآخر حضرت عثمان کے ہاتھ پر بیعت کر لی ۔
کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عثمان کی بیعت کی تھی؟
جواب :
جی ہا ں
طبقات ابن سعد میں ہے کہ سب سے پہلے حضرت عبد الرحمن بن عوف نے حضرت عثمان کی بیعت کی، اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپکی بیعت کی تھی ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کتنا عرصہ رہی ؟
جواب :
آپ بارہ سال بطور خلیفہ مسلمانوں کے امیر رہے۔
کیا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت سے لوگ خوش تھے ؟
جواب :
امام زہری فرماتے ہیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بارہ سال خلیفہ رہے، پہلے چھ سالوں میں لوگ آپ کی کسی بات کو ناپسند نہیں کرتے تھے، پھر اگلے چھ سالوں میں انہوں نے زیادہ نرمی اختیار کر لی اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی اور انعام و اکرام شروع کر دیا، یہ بات لوگوں کو اچھی نہ لگی اور لوگ ان سے بدظن ہو گئے ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف جو بغاوت ہوئی اس میں کس کس علاقے کے لوگ شامل تھے ؟
جواب :
آپ کے خلاف بغاوت کی جو آگے بھڑکائی جا رہی تھی اس کا مرکزکوفہ ،بصرہ اور مصر تھے ۔
کیا یہ بات درست ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اپنے دانتوں کو سونے کی تار سے باندھا کرتے تھے ؟
جواب :
جی ہاں، روایات میں یہ بات موجود ہے، آپ اپنے دانتوں کو سونے کی تار سے باندھا کرتے تھے ۔
سوال :
کیا سونے کا استعمال مردوں پر جائز ہے ؟
جواب :
ہر گز جائز نہیں ہے لیکن بعض شدید مجبوریوں میں نبی کریم ﷺ نے خود بھی اس کے استعمال کی اجازت دی ہے
جیسا کہ ترمذی شریف میں ہے کہ ایک جنگ میں ایک شخص کی ناک کٹ گئی، اس نے چاندی کی ناک لگوائی تو اس میں بدبو پیدا ہو گئی، اس نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی تو آپ ﷺنے انہیں سونے کی ناک لگوانے کی اجازت دی کیونکہ سونے میں بدبو پیدا نہیں ہوتی۔
توجہ طلب:
اس زمانے میں کمزور اور ہلتے دانتوں کی حفاظت کا کوئی اور ذریعہ نہیں تھا، اس لیے بعض صحابہ نے اپنے دانتوں کو
سونے کی تاروں سے باندھ رکھا تھا لیکن آج کل اس کے متبادل حل موجود ہیں، اس لیے آج کل سونے کی تاروں کو استعمال نہ کرنا بہتر ہے۔
دوسروں کے آرام کا خیال
سوال :کیا یہ واقعہ سچ ہے کہ حضرت عثمان رات کے وقت کسی خادم کو نہیں اٹھاتے تھے ؟
جواب :
جی ہاں
یہ بات طبقات ابن سعد میں ہےکہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ رات کے وقت تہجد کیلئے اٹھتے تو کسی خادم کو نہیں اٹھاتے تھے، اس وقت کے سارے انتظامات خود ہی کر لیا کرتے تھے، ان سے کہا گیا، جب آپ کے اتنے خادم موجود ہیں تو آپ انہیں کیوں نہیں حکم دیتے کہ وہ یہ تمام انتظامات کر دیں، آپ نے فرمایا، یہ انکے آرام کا وقت ہے، مجھے انہیں اٹھا نا اچھا نہیں لگتا ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے، جب وہ اپنے خادموں کو رات کے وقت نہیں اٹھاتے تھے تو یقینا اپنی بیوی کو بھی اپنی کسی ضرورت کیوجہ سے بیدا ر نہیں کرتے ہوں گے، ایسا معلوم ہوتا ہے، ان جیسے ہی اوصاف تھے، جن کی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا، اگر میری کوئی اوربیٹی بھی ہوتی تو میں اس کا نکاح بھی عثمان سے کر دیتا ۔
حیاء
سوال:کیا یہ بات درست ہے کہ حضرت عثمان اس امت کے سب سےزیادہ حیاء دار شخص تھے ؟
جواب :
جی ہا ں
انکے متعلق نبی کریم ﷺ نے خود یہ فرمایا ہے، عثمان میری امت کے سب سے زیادہ حیاء دار آدمی ہیں ۔
کاروبار
سوال :حضرت عثمان کا کاروبار کیا تھا ؟
جواب :
آپ تاجر تھے، آپ اپنا مال شرکت پر دے دیا کرتے تھے، یعنی وہ کہہ دیتے تھے، میرا مال ہے اس سے کماؤ اور نفع آدھا آدھا کر لیں گے ۔
خلیفہ مقرر
سوال :حضرت عثمان کا مسلمانوں کے خلیفہ کیلئے انتخاب کیسےہوا تھا ؟
جواب :
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے لوگ کہتے تھے، آپ اپنی زندگی میں ہی کسی کو خلیفہ مقرر کر جائیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس سے ہمیشہ انکار کرتے تھے، ایک مرتبہ آپ نے منبر پر فرمایا، اگر میں مرجاؤں تو یہ حکومت ان چھ آدمیوں کے سپرد ہے، جن سے رسول اللہ ﷺ وصال تک راضی تھے، پھر آپ نے ان کے نام ذکر کیے، حضرت علی ،حضرت زبیر بن عوام ،حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت عثمان بن عفان ،حضرت طلحہ بن عبید اللہ اور حضرت سعد بن مالک ۔
آپ نے ساتھ کچھ اصول بھی بیان کر دیے، آپ نے فرمایا، اگر ان چھ میں سے دو کے رائے مختلف اور چار کے رائے مختلف ہو تو تم اکثر کی رائے کے مطابق فیصلہ کرنا، اس طرح اگر تین تین کے رائے متفق ہو جائے تو پھر عبد الرحمن بن عوف کو فیصلے کا اختیار دینا، معاملہ ایسا ہوا کہ اس چھ رکنی کمیٹی میں کسی ایک پر اتفاق رائے نہ ہوسکا، انہوں نے معاملہ حضرت عبد الرحمن بن عوف کے سپرد کر دیا، حضرت عبد الرحمن نے تین دن سوچ و بچار کیا، عوام و خواص سے مشورے کیے بالآخر حضرت عثمان کے ہاتھ پر بیعت کر لی ۔
حضرت علی کی بیعت
سوال :کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عثمان کی بیعت کی تھی؟
جواب :
جی ہا ں
طبقات ابن سعد میں ہے کہ سب سے پہلے حضرت عبد الرحمن بن عوف نے حضرت عثمان کی بیعت کی، اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپکی بیعت کی تھی ۔
خلافت کی مدت
سوال :حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کتنا عرصہ رہی ؟
جواب :
آپ بارہ سال بطور خلیفہ مسلمانوں کے امیر رہے۔
دور خلافت
سوال:کیا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت سے لوگ خوش تھے ؟
جواب :
امام زہری فرماتے ہیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بارہ سال خلیفہ رہے، پہلے چھ سالوں میں لوگ آپ کی کسی بات کو ناپسند نہیں کرتے تھے، پھر اگلے چھ سالوں میں انہوں نے زیادہ نرمی اختیار کر لی اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی اور انعام و اکرام شروع کر دیا، یہ بات لوگوں کو اچھی نہ لگی اور لوگ ان سے بدظن ہو گئے ۔
بغاوت کا مرکز
سوال :حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف جو بغاوت ہوئی اس میں کس کس علاقے کے لوگ شامل تھے ؟
جواب :
آپ کے خلاف بغاوت کی جو آگے بھڑکائی جا رہی تھی اس کا مرکزکوفہ ،بصرہ اور مصر تھے ۔
گھر کا محاصرہ کرنے والے
سوال :
وہ لوگ کہاں سے آئے تھے جنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کیا ؟
جواب :
ایک روایت کے مطابق یہ لوگ مصر ،کوفہ اور بصرہ سے آئے تھے۔
مصر سے آنے والوں کی تعداد چھ سو تھی
ان کے ساتھ تین سردار تھے
عبد الرحمن بن عدیس بلوی
کنانہ بن بشر بن عتاب کندی
عمرو بن حمق خزاعی
وہ لوگ کہاں سے آئے تھے جنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کیا ؟
جواب :
ایک روایت کے مطابق یہ لوگ مصر ،کوفہ اور بصرہ سے آئے تھے۔
مصر سے آنے والوں کی تعداد چھ سو تھی
ان کے ساتھ تین سردار تھے
عبد الرحمن بن عدیس بلوی
کنانہ بن بشر بن عتاب کندی
عمرو بن حمق خزاعی
کوفے سے دو سو لوگ مالک اشتر نخعی کی قیادت میں آئے تھے، بصرے سے سو آدمی آئے تھے، ان کا سردار حکیم بن جبلہ عبدی تھا، اس کے علاوہ انکی مدد کیلئے عراق اور شام سے بھی لشکر روانہ ہو چکے تھے ۔
کیا یہ بات ٹھیک ہے کہ آپ کو اپنے گھر میں قتل کیا گیا تھا ؟
جواب:
جی ہاں، یہ بات درست ہے، آپ کو اس وقت گھر میں قتل کیا گیا، جب آپ تلاوت قرآن کر رہے تھے ۔
باغیوں نے آپ کے گھر کا محاصرہ کتنے دن کیا تھا ؟
جواب :
باغیوں نے تقریبا چالیس دن تک آپ کے گھر کا محاصرہ کیا۔
باغیوں نے اتنے دن کیوں محاصرہ رکھا ؟
جواب :
وہ سب سے پہلے تو آپ کو مسجد آنے جانے سے روکنا چاہتے تھے، اس محاصرے کے ذریعے انہوں نے بہت دنوں تک آپ کو مسجد آمدو رفت سے روکے رکھا ۔
تاریخ کی کتب میں ملتا ہے کہ آپ باغیوں سے خطاب کرتےتھے، یہ کیسے ممکن ہے حالانکہ آپ رضی اللہ عنہ تو گھر میں محصور تھے ؟
جواب :
آپ اپنے گھر کی چھت یا کھڑکی سے باغیوں سے خطاب کرتے تھے ۔
آپ کو گھر میں قتل کر دیا گیا، کیا مدینہ کے لوگوں نے آپ کی حفاظت نہیں کی ؟
جواب :
اس وقت حج کی وجہ سے مدینہ تقریبا خالی تھا، آپ کے پاس جو لوگ تھے انہوں نے اجازت چاہی کہ ہم ان سے جنگ کریں تو آپ نے فرمایا نہیں، میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے مدینۃ الرسول میں خون ریزی ہو ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ آپ سے کافی زیادہ بدظن ہو چکے ہوں اور آپ کو معزول کرنا چاہتے ہوں، یہ ان کا احتجاج ہو، طبقات ابن سعد کی ایک روایت سے اس کا اشارہ ملتا ہے
طبقات ابن سعد میں ہے کہ اصحاب رسول میں سے کوئی صرف باغیوں کے منہ پر مٹی ہی جھونک دیتا تو وہ سب ضرور ذلیل ہو کر واپس لوٹ جاتے ۔
کیا کسی محاصرہ کرنے والے سردار سے حضرت عثمان کی بات چیت بھی ہوئی تھی ؟
جواب :
جی ہاں
مالک اشتر سے آپ کی بات چیت ہوئی
آپ نے پوچھا، اے اشتر بتاؤ
لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہیں، اس نے کہا
لوگ تین باتیں چاہتے ہیں
ان تین کے علاوہ آپکے پاس کوئی راستہ نہیں ہے
اول :
آپ حکومت چھوڑ دیں اور کہہ دیں، جسے چاہو اپنا امیر بنا لو ۔
دوم:
آپ اپنی جان سے ان لوگوں کو قصاص لینے دیں ۔
سوم :
اگر آپ یہ دو کام نہیں کرنا چاہتے تو پھر ہم سے جنگ کیلئے تیار ہو جائیں ۔
آپ نے فرمایا، میں اس قمیص کو ہرگز نہیں اتاروں گا، جو اللہ نے مجھے پہنائی ہے۔
اگر تم مجھے قتل کرو گئے تو میرے بعد کبھی مل کر نماز نہیں پڑھ سکو گے، کبھی ایک ہو کر دشمن سے جنگ نہیں کر سکو گے، یہ سن کر اشتر چلا گیا ۔
آپ کو کس نے قتل کیا تھا ؟
جواب :
طبقات ابن سعد میں ہے، محمد بن ابی بکر تیرہ آدمیوں کے ہمراہ آئے، انہیں نے حضرت عثمان کی داڑھی پکڑ کر کھینچی
اور کہا، معاویہ آپکے کام نہیں آئے، فلاں فلاں آپكے كام نہیں آئے اور ایک برچھی آپکے سر پر ماری
پھر کنانہ بن بشر نے آپ کو برچھی ماری
پھر اس نے آپ کے سر پر ایک لوہے کی سلاخ ماری
پھر سودان بن حمران مرادی نے آپ کو تلوار ماری
پھر عمر و بن حمق کود کر آپ کے سینے پر بیٹھ گیا، اس وقت آپ میں تھوڑی سی ہی جان باقی تھی، اس نے اس حالت میں آپ کو نو زخم لگائے اور کہا،تین زخم میں نے اللہ کیلئے لگائے ہیں، جبکہ باقی چھ اپنے غصے کی وجہ سے لگائے ہیں ۔
حضرت عثمان کے آخری کلمات کیا تھے ؟
جواب :
آپ کے آخری کلمات تھے، بسم اللہ وتوکلت علی اللہ
کیا یہ بات درست ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان کو کہا تھا، اے عثمان ! آج تم ہمارے پاس افطار کرنا
جواب :
جی ہاں
طبقات ابن سعد میں ہے
کہ حضرت عثمان جس دن قتل کیے گئے، اس دن صبح آپ نے اپنے ہمراہیوں سے یہ خواب بیان کیا تھاکہ حضور نے مجھے فرمایا ہےکہ اے عثمان تم روزہ ہمارے پاس افطار کرنا ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو کس دن قتل کیا گیا ؟
جواب :
آپ رضی اللہ عنہ کو جمعہ کے دن عصر کے وقت قتل کیا گیا ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی قبر کہاں ہے ؟
جواب :
آپ کی قبر بقیع میں ہے
شہادت کے وقت حضرت عثمان کی عمر کیا تھا ؟
جواب :
ایک روایت کے مطابق آپکی عمر پچھتر سال تھی
ایک روایت کے مطابق آپ کی عمر بیاسی سال تھی
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ کتنے آدمیوں نے پڑھی تھی ؟
جواب :
آپ کی نماز جنازہ صرف چارا ٓدمیوں نے پڑھی تھی، جبیر بن مطعم نے نماز جنازہ پڑھائی اور انکے پیچھے حکیم بن حزام ،ابو جہم بن حذیفہ اورنیار بن مکرم تھے ۔
بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے، کہ سترہ آدمیوں نے نماز جنازہ پڑھی لیکن ابن سعد کہتے ہیں، چار آدمیوں والی روایت زیادہ ثابت ہے۔
کیا صحابہ کرام کو قتل عثمان پر دکھ تھا ؟
جواب :
جی ہاں
حضرت سعید بن زید فرماتے تھے، جو تم لوگوں نے ا بن عفان کے ساتھ کیا، اگر اس پر احد کا پہاڑ ٹوٹ پڑے تو بجا ہے۔
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں، اگر سب لوگ قتل عثمان بن متفق ہو جاتے تو ان پر آسمان سے اس طرح پتھر برسائے جاتے،
جیسے قوم لوط پر برسائے گئے تھے۔
حضرت حذیفہ نے فرمایا، قتل عثمان اسلام میں ایک ایسا شگاف ہے،جسے پہاڑ بھی پر نہیں کر سکتا۔
دوران تلاوت شہادت
سوال :کیا یہ بات ٹھیک ہے کہ آپ کو اپنے گھر میں قتل کیا گیا تھا ؟
جواب:
جی ہاں، یہ بات درست ہے، آپ کو اس وقت گھر میں قتل کیا گیا، جب آپ تلاوت قرآن کر رہے تھے ۔
چالیس دن محاصرہ
سوال :باغیوں نے آپ کے گھر کا محاصرہ کتنے دن کیا تھا ؟
جواب :
باغیوں نے تقریبا چالیس دن تک آپ کے گھر کا محاصرہ کیا۔
محاصرے کا سبب
سوال:باغیوں نے اتنے دن کیوں محاصرہ رکھا ؟
جواب :
وہ سب سے پہلے تو آپ کو مسجد آنے جانے سے روکنا چاہتے تھے، اس محاصرے کے ذریعے انہوں نے بہت دنوں تک آپ کو مسجد آمدو رفت سے روکے رکھا ۔
باغیوں سے خطاب
سوال:تاریخ کی کتب میں ملتا ہے کہ آپ باغیوں سے خطاب کرتےتھے، یہ کیسے ممکن ہے حالانکہ آپ رضی اللہ عنہ تو گھر میں محصور تھے ؟
جواب :
آپ اپنے گھر کی چھت یا کھڑکی سے باغیوں سے خطاب کرتے تھے ۔
مدینے کے لوگ کیوں نہیں آئے
سوال :آپ کو گھر میں قتل کر دیا گیا، کیا مدینہ کے لوگوں نے آپ کی حفاظت نہیں کی ؟
جواب :
اس وقت حج کی وجہ سے مدینہ تقریبا خالی تھا، آپ کے پاس جو لوگ تھے انہوں نے اجازت چاہی کہ ہم ان سے جنگ کریں تو آپ نے فرمایا نہیں، میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے مدینۃ الرسول میں خون ریزی ہو ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ آپ سے کافی زیادہ بدظن ہو چکے ہوں اور آپ کو معزول کرنا چاہتے ہوں، یہ ان کا احتجاج ہو، طبقات ابن سعد کی ایک روایت سے اس کا اشارہ ملتا ہے
طبقات ابن سعد میں ہے کہ اصحاب رسول میں سے کوئی صرف باغیوں کے منہ پر مٹی ہی جھونک دیتا تو وہ سب ضرور ذلیل ہو کر واپس لوٹ جاتے ۔
مالک اشتر سے بات چیت
سوال:کیا کسی محاصرہ کرنے والے سردار سے حضرت عثمان کی بات چیت بھی ہوئی تھی ؟
جواب :
جی ہاں
مالک اشتر سے آپ کی بات چیت ہوئی
آپ نے پوچھا، اے اشتر بتاؤ
لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہیں، اس نے کہا
لوگ تین باتیں چاہتے ہیں
ان تین کے علاوہ آپکے پاس کوئی راستہ نہیں ہے
اول :
آپ حکومت چھوڑ دیں اور کہہ دیں، جسے چاہو اپنا امیر بنا لو ۔
دوم:
آپ اپنی جان سے ان لوگوں کو قصاص لینے دیں ۔
سوم :
اگر آپ یہ دو کام نہیں کرنا چاہتے تو پھر ہم سے جنگ کیلئے تیار ہو جائیں ۔
آپ نے فرمایا، میں اس قمیص کو ہرگز نہیں اتاروں گا، جو اللہ نے مجھے پہنائی ہے۔
اگر تم مجھے قتل کرو گئے تو میرے بعد کبھی مل کر نماز نہیں پڑھ سکو گے، کبھی ایک ہو کر دشمن سے جنگ نہیں کر سکو گے، یہ سن کر اشتر چلا گیا ۔
قاتل
سوال:آپ کو کس نے قتل کیا تھا ؟
جواب :
طبقات ابن سعد میں ہے، محمد بن ابی بکر تیرہ آدمیوں کے ہمراہ آئے، انہیں نے حضرت عثمان کی داڑھی پکڑ کر کھینچی
اور کہا، معاویہ آپکے کام نہیں آئے، فلاں فلاں آپكے كام نہیں آئے اور ایک برچھی آپکے سر پر ماری
پھر کنانہ بن بشر نے آپ کو برچھی ماری
پھر اس نے آپ کے سر پر ایک لوہے کی سلاخ ماری
پھر سودان بن حمران مرادی نے آپ کو تلوار ماری
پھر عمر و بن حمق کود کر آپ کے سینے پر بیٹھ گیا، اس وقت آپ میں تھوڑی سی ہی جان باقی تھی، اس نے اس حالت میں آپ کو نو زخم لگائے اور کہا،تین زخم میں نے اللہ کیلئے لگائے ہیں، جبکہ باقی چھ اپنے غصے کی وجہ سے لگائے ہیں ۔
آخری کلمات
سوال:حضرت عثمان کے آخری کلمات کیا تھے ؟
جواب :
آپ کے آخری کلمات تھے، بسم اللہ وتوکلت علی اللہ
خواب
سوال :کیا یہ بات درست ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان کو کہا تھا، اے عثمان ! آج تم ہمارے پاس افطار کرنا
جواب :
جی ہاں
طبقات ابن سعد میں ہے
کہ حضرت عثمان جس دن قتل کیے گئے، اس دن صبح آپ نے اپنے ہمراہیوں سے یہ خواب بیان کیا تھاکہ حضور نے مجھے فرمایا ہےکہ اے عثمان تم روزہ ہمارے پاس افطار کرنا ۔
قتل کا دن
سوال:حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو کس دن قتل کیا گیا ؟
جواب :
آپ رضی اللہ عنہ کو جمعہ کے دن عصر کے وقت قتل کیا گیا ۔
قبر کا مقام
سوال :حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی قبر کہاں ہے ؟
جواب :
آپ کی قبر بقیع میں ہے
شہادت کے وقت عمر
سوال:شہادت کے وقت حضرت عثمان کی عمر کیا تھا ؟
جواب :
ایک روایت کے مطابق آپکی عمر پچھتر سال تھی
ایک روایت کے مطابق آپ کی عمر بیاسی سال تھی
جنازہ
سوال :حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ کتنے آدمیوں نے پڑھی تھی ؟
جواب :
آپ کی نماز جنازہ صرف چارا ٓدمیوں نے پڑھی تھی، جبیر بن مطعم نے نماز جنازہ پڑھائی اور انکے پیچھے حکیم بن حزام ،ابو جہم بن حذیفہ اورنیار بن مکرم تھے ۔
بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے، کہ سترہ آدمیوں نے نماز جنازہ پڑھی لیکن ابن سعد کہتے ہیں، چار آدمیوں والی روایت زیادہ ثابت ہے۔
شہادت اور صحابہ
سوال :کیا صحابہ کرام کو قتل عثمان پر دکھ تھا ؟
جواب :
جی ہاں
حضرت سعید بن زید فرماتے تھے، جو تم لوگوں نے ا بن عفان کے ساتھ کیا، اگر اس پر احد کا پہاڑ ٹوٹ پڑے تو بجا ہے۔
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں، اگر سب لوگ قتل عثمان بن متفق ہو جاتے تو ان پر آسمان سے اس طرح پتھر برسائے جاتے،
جیسے قوم لوط پر برسائے گئے تھے۔
حضرت حذیفہ نے فرمایا، قتل عثمان اسلام میں ایک ایسا شگاف ہے،جسے پہاڑ بھی پر نہیں کر سکتا۔
حضرت ابوہریرہ حضرت عثمان کی شہادت کو یاد کرکے روتے تھے۔
حضرت زید بن ثابت واقعہ عثمان پررویا کرتے تھے ۔
کیا حضرت عثمان باغیوں کو قتل کروا سکتے تھے ؟
جواب :
جی ہاں
یہ شرعا بالکل جائز تھا
کیونکہ
اسلام میں باغی کی سزا موت ہے اور خلیفہ ،بادشاہ یا حکمران کو اختیار ہے، وہ باغیوں پر اتمام حجت کرے، یعنی انکے شبہات کے جوابات دے، اگر پھر بھی نہ مانیں تو انہیں فوج کے ذریعے قتل کروا دے۔
اس دن آپکے ساتھ مکان میں کتنے لوگ تھے ؟
جواب :
ایک روایت کے مطابق آپکے ساتھ سات سو لوگ تھے، جن میں حضرت عبد اللہ بن زبیر ،حضرت حسن بن علی اورحضرت ابن عمر وغیرہ شامل تھے ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کس سال میں شہید ہوئے ؟
جواب :
آپ رضی اللہ عنہ پینتیس ہجری میں شہید ہوئے ۔
کیا باغیوں کا کسی بھی وجہ سے آپ کو قتل کرنا جائز تھا ؟
جواب :
ہر گز جائز نہیں تھا کیونکہ کسی مسلمان کا قتل حدیث کے مطابق تین ہی وجہ سے جائز ہوتا ہے
اول:
جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوجائے
دوم :
شادی شدہ جب زنا کرے
سوم :
قتل کے بدلے قتل
اور یہ تینوں باتیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ میں نہیں پائی جاتی تھی ۔
کیا یہ بات درست ہے کہ محاصرے کے دوران حضرت عثمان نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملنے کی کوشش کی تھی ؟
جواب :
یہ بات بالکل درست ہے، آپ نے حضرت علی کو پیغام بھجوایا تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ سے ملنے کے لیے گئے
لیکن بعض لوگوں نے آپ کو ملنے سے روک دیا، آپ نے دوسرے راستے سے جانا چاہا، تو کچھ دیر بعد آپ کو خبر ملی
حضرت عثمان کو شہید کر دیا گیا ہے
اس وقت حضرت علی نے فرمایا
اے اللہ !
میں عثمان کے قتل سے خوش نہیں ہوں، نہ میں نے اس کا حکم دیا ہے ۔
حضرت زید بن ثابت واقعہ عثمان پررویا کرتے تھے ۔
کیا باغیوں کا قتل جائز تھا
سوال :کیا حضرت عثمان باغیوں کو قتل کروا سکتے تھے ؟
جواب :
جی ہاں
یہ شرعا بالکل جائز تھا
کیونکہ
اسلام میں باغی کی سزا موت ہے اور خلیفہ ،بادشاہ یا حکمران کو اختیار ہے، وہ باغیوں پر اتمام حجت کرے، یعنی انکے شبہات کے جوابات دے، اگر پھر بھی نہ مانیں تو انہیں فوج کے ذریعے قتل کروا دے۔
مکان میں لوگوں کی تعداد
سوال :اس دن آپکے ساتھ مکان میں کتنے لوگ تھے ؟
جواب :
ایک روایت کے مطابق آپکے ساتھ سات سو لوگ تھے، جن میں حضرت عبد اللہ بن زبیر ،حضرت حسن بن علی اورحضرت ابن عمر وغیرہ شامل تھے ۔
شھادت کا سال
سوال :حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کس سال میں شہید ہوئے ؟
جواب :
آپ رضی اللہ عنہ پینتیس ہجری میں شہید ہوئے ۔
کیا حضرت عثمان کا قتل جائز تھا
سوال :کیا باغیوں کا کسی بھی وجہ سے آپ کو قتل کرنا جائز تھا ؟
جواب :
ہر گز جائز نہیں تھا کیونکہ کسی مسلمان کا قتل حدیث کے مطابق تین ہی وجہ سے جائز ہوتا ہے
اول:
جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوجائے
دوم :
شادی شدہ جب زنا کرے
سوم :
قتل کے بدلے قتل
اور یہ تینوں باتیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ میں نہیں پائی جاتی تھی ۔
حضرت علی سے ملنے کی کوشش
سوال :کیا یہ بات درست ہے کہ محاصرے کے دوران حضرت عثمان نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملنے کی کوشش کی تھی ؟
جواب :
یہ بات بالکل درست ہے، آپ نے حضرت علی کو پیغام بھجوایا تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ سے ملنے کے لیے گئے
لیکن بعض لوگوں نے آپ کو ملنے سے روک دیا، آپ نے دوسرے راستے سے جانا چاہا، تو کچھ دیر بعد آپ کو خبر ملی
حضرت عثمان کو شہید کر دیا گیا ہے
اس وقت حضرت علی نے فرمایا
اے اللہ !
میں عثمان کے قتل سے خوش نہیں ہوں، نہ میں نے اس کا حکم دیا ہے ۔
مزید یہ بھی پڑھیے:
COMMENTS