کومسٹس یونیورسٹی کے پیپر میں گندہ سوال
تحریر:
احسان اللہ کیانی
Comsats University پاکستان کی مشہور ترین یونیورسٹیوں میں اسے ایک ہے، پچھلے دنوں اس نے ایک بہت ہی گٹھیا حرکت کی ہے، جس کا تصور بھی ایک عزت دار آدمی نہیں کرسکتا۔
معاملہ کچھ یوں ہے کہ کومسٹس یونیورسٹی کا انگلش کا paper تھا، اس میں یونیورسٹی کے استاد صاحب جن کا نام خیر البشر ہے، انہوں نے ایک سوال شامل کیا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دو بہن بھائی ساحل سمندر پر گئے، انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ آپس میں سیکس کریں گے، یہ ایک نیا تجربہ ہوگا، یہ سیکس ان کے درمیان ایک راز ہوگا، وہ کسی کو اس کے متعلق نہیں بتائیں گے۔
اس سوال میں یہ بھی تھا کہ بھائی نے کنڈم پہلے سے ہی رکھا ہوا تھا، بہن بھی پہلے سے ہی مانع حمل ادویات کھا چکی تھی، تاکہ وہ محفوظ رہیں۔
اس کے بعد طلباء کو کہا گیا کہ وہ اس پر تین سو الفاظ کا مضمون لکھیں، جس میں بتائیں کہ ان کا آپس میں یہ کرنا درست تھا یا نہیں، جو بھی جواب دیں، اس کی وجوہات بھی بتائیں، مثلا یہ غلط ہے تو کیوں غلط ہے، صحیح ہے تو کیوں صحیح ہے، اس کے ساتھ مثالیں بھی دیں، جو ذاتی علم اور ذاتی رائے پر مشتمل ہوں۔
آپ ایمان داری سے بتائیں، آپ کو اس سوال کا کوئی اچھا مقصد سمجھ میں آتا ہے، یقین مانیے مجھے تو اس سوال میں کوئی خیر نظر نہیں آتی۔
آپ اندازہ لگائیں جن بے ہودہ کرداروں نے یہ گندہ فعل کیا، انہوں نے بھی کہا تھا کہ ہم یہ کسی کو نہیں بتائیں گے، وہ بھی جانتے تھے کہ یہ اس قدر گندہ فعل ہے کہ اسے بیان نہیں کیا جاسکتا، مگر یونیورسٹی کے پروفیسر صاحب نے اسے طلباء کے سامنے رکھا، اس نے کہا کہ وہ بتائیں، یہ صحیح تھا یا نہیں، اگر صحیح تھا تو کیوں، اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پروفیسر صاحب کے مقاصد کیا تھے۔۔
اس سوال میں کہا گیا کہ وجوہات بھی لکھیں،اس سے ایسے لگتا ہے کہ یہ کسی این جی او کی طرف سے دیا گیا سوال تھا، تاکہ یونیورسٹی کے طلباء کی ذہنیت کا فردا فردا اندازہ لگایا جاسکے، یہ تو ایک سوال ہے جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا، خدا جانے کتنے ہی ایسے سوال پوچھے جاتے ہوں گے اور اس سے کیا کیا مقاصد حاصل کیے جاتے ہوں گے، ہمارے لوگوں کو اس پر نظر رکھنی چاہیے۔
کہا جارہا ہے کہ Comsats university کے اس پروفیسر کو نکال دیا گیا ہے، اس سے پوچھا گیا، تم نے یہ سوال کیوں شامل کیا تھا تو اس خبیث کا جواب تھا، میں نے یہ سوال گوگل سے لیا تھا، ارے بھائی گوگل سے لیا تھا، لیکن تم نے پڑھا تک نہیں، اگر ایسا ہی ہے تو یونیورسٹی کا کیا معیار ہے، جس کے پروفیسر سوالات بھی اپنی طرف سے نہیں لکھ سکتے، اگر گوگل سے لیتے ہیں تو بے چارے اس قابل بھی نہیں ہیں کہ اس میں کچھ ترمیم یا اضافہ کر سکیں، اس لیے پہلی فرصت میں ہی والدین کو اپنے بچوں کو یہاں سے نکال لینا چاہیے۔
اس سوال سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں میں تعلیم کی ساتھ کس قسم کی تربیت کی کوشش کی جارہی ہے، کچھ کالی بھیڑوں کو اسی لیے یونیورسٹیوں میں داخل کیا جاتا ہے، جو چند ٹکوں کی خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں، اعلی حکام کو اس بات پر کڑی نظر رکھنی چاہیے، اسی طرح عوام و خواص کو بھی اس پر احتجاج کرنا چاہیے تاکہ دوبارہ پھر کوئی ایسی حرکت نہ کر سکے۔
Comsats university کے پیپر کا عکس یہ ہے، جسے ہم نے اس ویب سائٹ سے لیا ہے۔
مزید یہ بھی پڑھیے:
COMMENTS