وہ قرآن کیوں جلاتے ہیں ؟
تحریر:
احسان اللہ کیانی
میرے نزدیک اس کی چند وجوہات ہیں ۔پہلی وجہ یہ ہے کہ وہ اس کو دلائل کی دنیا میں شکست نہیں دے سکتے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ اس سے بہتر کتاب دنیا کے سامنے نہیں لا سکتے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ قرآن کے پاس جو سحر ہے،اس کا توڑ وہ آج تک دریافت نہیں کرسکے ۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ ان کی مذہبی کتابیں ایک لمحے کیلئے بھی قرآن کے سامنے کسی میدان میں ٹھہر نہیں سکتی ۔پانچویں وجہ یہ ہے کہ اس کتاب کو دنیا میں آئے چودہ سو سال ہوئے ہیں اور اس کے ماننے والوں نے تقریبا بارہ سو سال دنیا کے ایک بڑے علاقے پر حکومت کی ہے، الحمد للہ آج بھی ستاون ممالک کی حکومتیں اس کو ماننے والوں کی ہیں ۔چھٹی وجہ یہ ہے کہ اس کو پڑھنے، سمجھنے اور سمجھانے والے جانتے ہیں کہ دنیا پر غالب آنے کے اصول کیا ہیں ،آپ سوچ رہے ہوں گے، ایسے کون سے اصول ہیں جو قرآن کریم نے بتائے ہیں جن سے عالمی طاقتیں خوف زدہ ہیں، ہم کچھ اہم اصول آپ کو ابھی بتادیتے ہیں ۔
پہلا اصول:
قرآن کریم کہتا ہے کہ اتنی جنگی طاقت جمع کرو جس سے تمہارا دشمن خوف کھائے ،اس اصول میں بتایا جارہا ہے کہ جنگی طاقت ایسی ہونی چاہیے، جس سے دشمن خوف کھائے ،مثال کے طور پر آج کل دنیا ایٹمی طاقتوں سے خوف کھاتی ہے، اس لیے ہر مسلم ملک کو ایٹمی طاقت ہونا چاہیے،اگر مسلمان کچھ عرصہ قبل اس اصول پر عمل کر لیتے تو عراق، شام اور افغانستان یوں تباہ نہ ہوتے۔
دوسرا اصول:
قرآن کریم کہتا ہے کہ فرقہ بندی کو ختم کرکے متحد ہو جاو ۔ اس اصول میں بتایا جارہا ہے کہ فرقہ بندی کو ختم کرو، اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ بریلوی، دیوبندی اورسلفی وغیرہ نہ بنو بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ پاکستانی، افغانی ،بنگالی، ترکی، ایرانی اور سعودی بن کر نہ سوچو بلکہ ایک متحدہ حکومت قائم کرو ، جو اقوام متحدہ کے مقابلے میں امت متحدہ کی حیثیت رکھتی ہو ، جس کی فوج، کرنسی اور پالیسی ایک عالمی لیڈر کےزیر اثر ہو، جسے دنیا خلیفۃ المسلمین یا امیر المومنین کے نام سے جانے ، دنیا بھر کے مسلم حکمران اس کے ہاتھ پر بیعت کرکے اس کی فرمانبرداری کا اظہار کریں اور شرق سے غرب تک پھیلی مسلمان فوجیں اس کے حکم کے ماتحت ہو جائیں ، اگر مسلمان صرف اسی اصول پر عمل کرلیں تو دنیا کی کوئی طاقت بھی ان کو ٹیڑی آنکھ سے نہیں دیکھ سکے گی ، اس گرے پڑے دور میں بھی اگر ستاون اسلامی ممالک یک زبان ہو کر آج بھی کسی کام کی ٹھان لیں تو دنیا ان کے فیصلے کو کسی صورت نظر انداز نہیں کر سکتی ۔
تیسرا اصول:
قرآن کریم کہتا ہے کہ مسلسل آگے بڑھ کر حملہ آور ہوتے رہو ۔اس اصول میں بتایا جارہا ہے کہ تم نے جنگوں میں پیش قدمی جاری رکھنی ہے اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ جب تم پیش قدمی کر رہے ہو گے تو لوگ صرف اپنا دفاع کرسکیں گے، انہیں تمہاری سرحدوں کی طرف آنے کا موقع ہی نہیں ملے گا،اس طرح روز بروز تمہاری سرحدوں میں اضافہ ہوتا رہے گا اور مال غنیمت سے تمہارے معاشی حالات بھی بہترسے بہترین ہوتے جائیں گے ۔
چوتھا اصول:
قرآن کریم کہتا ہے کہ اپنی پسندیدہ دو دو، تین تین اور چار چار عورتوں سے نکاح کرو ، اس کا فائدہ یہ ہے کہ تمہاری تعداد بڑھتی جائے گی، اس سے تمہاری گوریلا فوج میں اضافہ ہوگا جو کسی علاقے کو فتح کرنے کے بعد قبضہ برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہوتی ہے، اس کا فائدہ یہ بھی ہے کہ تمہیں قحط الرجال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، یاد رکھیں کہ تعداد بڑی چیز ہوتی ہے ، اس کو ہلکا مت سمجھیں ، آج بھی جس گھر میں دس بھائی ہوں ، محلے میں ہر کوئی سوچ سمجھ کر ان سے چھیڑ چھاڑ کرتا ہے۔
اس کے علاوہ بھی سینکڑوں مواقع پر قرآن کریم اس انداز میں تربیت کرتا ہےکہ ایک تنکا بھی پہاڑوں سے ٹکرانے کو تیار ہو جاتا ہے، تاریخ کئی مرتبہ اس کا مشاہدہ کر چکی ہے کہ مسلمانوں کی قلیل تعداد نے بھی بڑے بڑے لشکروں کو عبرت ناک شکست دی ہے، یہی وہ وجوہات ہیں جو کفار کو پریشان کیے جارہی ہیں اور وہ اس کی توہین کرکے اپنے دل کو تسکین پہنچانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں ، جلد لیگ آف نیشنز کی طرح اقوام متحدہ کا ادارہ بھی ختم ہوگا اور مسلمان ایک نئی عالمی طاقت بن کر ابھریں گے جس کیلئے حالات ساز گار ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، بس ایک کام کریں ، قرآن کی تعلیمات کو عام کرتے رہیں ، دشمن اپنی موت خود مر جائے گا۔
COMMENTS