مساجد اور مدارس کے خدمت گار
تحریر:
احسان اللہ کیانی
میں ہمیشہ تھوڑے عرصے کے بعد مساجد کے ائمہ اور مدارس کے اساتذہ کی کم تنخواہوں کے حوالے سے احتجاج کرتا رہتا ہوں، کچھ لوگ یہ سمجھتے ہوں گے کہ شاید میں خود امام مسجد ہوں یا کسی مدرسے میں استاد ہوں اور اپنی کم تنخواہ پر احتجاج کرتا ہوں حالانکہ ایسا نہیں ہے، میں کئی سالوں سے مسجد اور مدرسے کی ان دونوں ذمہ داریوں سے دور ہوں ۔
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میں تنقید کیوں کرتا ہوں، احتجاج کیوں کرتا ہوں ، کیا میں مساجد اور مدارس کی انتظامیہ کو بدنام کرنا چاہتا ہوں،کیا میرا مقصد یہ ہے کہ لوگ اس فیلڈ کی طرف کم سے کم آئیں ، نہیں ،ہرگز نہیں بلکہ میں تو چاہتا ہوں کہ لوگ زیادہ سے زیادہ ان شعبوں میں آئیں ، کیونکہ مساجد کے ائمہ اور مدارس کے اساتذہ یہ دونوں ہی عموما لوگوں کی دینی ذہن سازی کرتے ہیں، یہی دین داری کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں ، یہی لوگوں کو نمازی اور داڑھی والا بناتے ہیں، ان ہی کی برکت سے آج پاکستان میں لاکھوں حافظ اور عالم ہیں ۔
در اصل میں اس لیے تنقید کرتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جس شعبے کی تنخواہیں کم ہوتی ہیں، عموما اچھے لوگ اس شعبےکو چھوڑ دیتے ہیں اور ردی اور ناقص قسم کے لوگ وہاں رہ جاتے ہیں، البتہ یہاں معاملہ دین سے جڑا ہے، اس لیے اب بھی بڑی بڑی علمی، قابل اور اعلی اخلاق کی مالک شخصیات ان شعبوں میں موجود ہیں لیکن مجھے بد قسمتی سے کہنا پڑ رہا ہے کہ بہت سے لوگ جو علوم کے سمندر تھے، فلسفہ، سائنس اور جدید ٹیکنالوجی سے بھی اچھی واقفیت رکھتے تھے،انگریزی، عربی ، فارسی اور بہت سی دیگر زبانوں کے ماہر تھے، عالی اخلاق کے مالک تھے، اچھے خاندانوں اور عمدہ گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے، جو نوجوان نسل کی ذہنی الجھنوں کو دور کر سکتے تھے، جن کو دین و دنیا کی خوب واقفیت تھی ، وہ مدارس اور مساجد کی کم تنخواہوں کی وجہ سے ان شعبوں میں اپنی خدمات پیش نہیں کرسکے۔
اس سے نقصان یہ ہوا کہ مدارس کے اساتذاہ اور مساجد کے ائمہ عموما دور دراز کے دیہاتوں کے لوگ رہ گئے،جس کی وجہ سے شہروں کے لوگ زیادہ ان سے جڑ نہیں سکے، یہی وجہ ہے کہ آج بھی مدارس میں نوے فیصد بچے دیہاتوں کے ہوتے ہیں، اس سے ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ دونوں کے ماحول میں خاصا فرق تھا، اس وجہ سے یہ دونوں نفسیاتی طور پر بھی باہم قریب ہوکر ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھ نہیں سکے۔
COMMENTS