سوال:
مجھ سے روزے میں گناہوں سے بچا نہیں جاتا اور حدیث میں ایسے روزے کو بے فائدہ کہا گیا ہے ،میں کافی ٹائم سے اسی وجہ سے روزے نہیں رکھ رہا ،کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے ؟
جواب :
لگتا ہے آپ کو ایک حدیث مبارکہ سے مغالطہ ہو گیا ہے،جس کے الفاظ یہ ہیں:
كَمْ مِنْ صَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صَوْمِهِ إِلَّا الْجُوعُ وَالْعَطَشُ
کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں جنہیں روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا ۔
(رواہ النسائی وابن ماجہ کمافی احیاء العلوم)
اس کی شرح میں تین قول بیان کیے گئے ہیں
فَقِيلَ هُوَ الَّذِي يُفْطِرُ عَلَى الْحَرَامِ وَقِيلَ هُوَ الَّذِي يُمْسِكُ عَنِ الطَّعَامِ الْحَلَالِ وَيُفْطِرُ عَلَى لُحُومِ النَّاسِ بِالْغِيبَةِ وَهُوَ حَرَامٌ وَقِيلَ هُوَ الَّذِي لَا يَحْفَظُ جَوَارِحَهُ عَنِ الْآثَامِ
ان سےمراد وہ لوگ ہیں جو حرام سے روزہ افطار کرتے ہیں یا ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو لوگوں کی غیبت کرکے روزہ افطار کر دیتے ہیں یا ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے جسم کے اعضاء کو گناہوں سے نہیں بچاتے ۔
(احیاء العلوم ،کتاب الصوم )
آپ نے حدیث شریف اور اس کی شرح پڑھ لی، لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر کوئی آدمی ان گناہوں سے نہیں بچ سکتا تو روزہ نہ رکھے بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ روزے کی جو برکتیں ہوتی ہیں، اس کے جو فائدے ہوتے ہیں، وہ اس شخص کو نہیں ملیں گے جو روزہ میں گناہوں سے نہیں بچتا۔
اگر کوئی شخص اس وجہ سے روزے نہیں رکھتا تو زیادہ بڑا مجرم قرار پائے گا کیونکہ ایک تو وہ گناہوں سے نہیں بچ رہا، دوسرا جس چیز کو اللہ تعالی نے فرض کیا تھا، یہ اسے بھی چھوڑ رہا ہے۔
آپ اگر کامل عبادت نہیں کر پا رہے تو کم ازکم ناقص اعمال کو تو جاری رکھیں تاکہ آپ رحمت الہی سے بالکل ہی محروم نہ رہ جائیں۔
اگر آپ اللہ تعالی کی ذات کی بالکل پرواہ نہیں کر رہے تو میرا ایک سوال ہے،جب آپ کسی ایسی مشکل میں پھنسیں گے،جس سے نکلنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہوگی تو آپ کس کو مدد کیلئے پکاریں گے؟
یقینی سی بات ہے کہ ایسے وقت میں اللہ تعالی ہی مدد کرسکتا ہے، اسی طرح آخرت کے متعلق بھی سوچیں، وہ اپنے رب کی عدالت میں کیسے کھڑے ہوں گے۔
از
احسان اللہ کیانی
COMMENTS