شوال کے روزوں کے حوالے سے میرے چند سوالات ہیں ۔
۱۔شوال کے روزے رکھنے کا کیا حکم ہے؟
کیا یہ مکروہ اور بدعت ہیں ؟
۲۔کیا شوال کے روزوں کی کوئی فضیلت قرآن و حدیث میں ہے؟
۳۔شوال کے روزوں رکھنے میں حکمت کیا
ہے ؟
۴۔ شوال کے روزے اکٹھے رکھنے چاہییں یا علیحدہ علیحدہ؟
۵۔کیا رمضان کے فورا بعد ہی شوال کے روزے رکھ سکتے ہیں؟
۶۔کیا شوال کے روزوں کا ثواب سارے سال کے روزوں کے برابر ہے اگر ہاں تو کیسے ؟
۷۔جس پر رمضان کے روزوں کی قضاء ہو کیااسے بھی شوال کے روزوں کا ثواب ملے گا۔
ان سب کے جوابات ہم (احسان اللہ کیانی ڈاٹ کام) پر سوالات کی ترتیب سے ہی دے رہے ہیں۔
شوال کے روزوں کا حکم
ا۔شوال کے روزے رکھنا مستحب ہے ،یہ بدعت
اور مکروہ نہیں ہیں۔
شوال کے روزے مکروہ اور بدعت
شوال کے روزے ایک صورت میں مکروہ اور بدعت بھی ہیں،اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی
بندہ انہیں رمضان کے ساتھ ہی جوڑ دے
مثلا
پہلا روزہ یکم شوال یعنی عید کے دن
رکھے اور اس کے بعد پھر باقی روزے رکھے ،یہ طریقہ بدعت اور مکروہ ہے کیونکہ عید کے
دن روزہ رکھنا منع ہے۔
اس حوالے سے فتاوی شامی میں ہے:
والإتباع المكروه أن يصوم الفطر وخمسة بعده فلو أفطر الفطر لم يكره بل يستحب ويسن
ترجمہ:
عید کے دن روزہ رکھنا اور اس کے بعد پانچ روزے رکھنا یہ اتباع مکروہ ہے، اگر
کوئی شخص عید کے دن روزہ نہ رکھے تو یہ مکروہ نہیں ہے بلکہ مستحب اور سنت ہے ۔
شوال کے روزوں کی فضیلت
۲۔شوال کے روزوں کی فضیلت حدیث شریف میں آئی ہے ۔
حدیث شریف میں ہے :
من صام رمضان
وشوالا والأربعاء والخميس دخل الجنة
ترجمہ:
جس نے رمضان ، شوال ،بدھ اور جمعرات
کے روزے رکھے وہ جنت میں داخل ہوگا۔
(مجمع الزوائد)
وضاحت :
اس حدیث میں شوال کے روزے رکھنے والے کیلئے جنت کی بشارت ہےمگر اس حدیث میں یہ
وضاحت نہیں ہے کہ شوال کے کتنے روزے رکھنے ہیں اور کس ترتیب سے رکھنے ہیں ،اس کی
وضاحت دوسری حدیث میں ہے:
من صام رمضان
ثم أتبعه ستا من شوال كان كصيام الدهر
ترجمہ:
جس نے
رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ہمیشہ روزے رکھنے کی
طرح ہے ۔
(یہ حدیث
صحیح مسلم اور سنن ترمذی میں ہے)
شوال کے روزوں کی حکمت
۳۔شوال کے
روزے رکھنے میں حکمت یہ ہے کہ رمضان والی برکات باقی رہیں اور عید کے فورا بعد
انسان دوبارہ سے اپنے نفس کو قابو میں رکھنے پر قادر ہو جائے ،ورنہ عموما عید کے
بعد بہت سے لوگ غفلت میں چلے جاتے ہیں ۔
شوال کے چھ روزے کیسے رکھیں
۴۔ شوال کے
روزے کیسے رکھنے چاہییں اکھٹے یا الگ الگ ،شریعت مطہرہ میں اس کی کوئی پابندی نہیں
ہے، عید کے پہلے دن کے علاوہ شوال کے سارے مہینے میں آپ یہ روزے رکھ سکتے ہیں،
چاہیں اکھٹے چھ رکھیں اور چاہیں تو الگ الگ روزے رکھیں جیسے آپ کو سہولت ہوالبتہ
فقہاء نے متفرق طور پر ان روزوں کو رکھنا مستحب لکھا ہے، فتاوی شامی میں ہے:
ندب تفريق صوم
الست من شوال
ترجمہ:
شوال کے چھ
روزوں میں جدائی مستحب ہے ۔
رمضان کے فورا بعد شوال کے روزے رکھنا کیسا ہے
۵۔ رمضان
کے فورا بعد یعنی عید کے دن سےروزہ رکھنا جائز
نہیں ہے البتہ عید کے دوسرے دن سے ان روزوں کا آغاز کر سکتے ہیں،فتاوی شامی میں
ہے:
كفى بيوم الفطر مفرقاً بينهن وبين رمضان
ترجمہ:
رمضان اور
ان روزوں کے درمیان فرق کرنے کیلئے عید الفطر کا دن ہی کافی ہے ۔
سارے سال کے روزوں کا ثواب
۶۔شوال کے
چھ روزے رکھنا حدیث شریف کے مطابق سارے سال کے روزے رکھنے کے برابر ہے، اس کی
وضاحت یہ ہے کہ قرآنی تعلیمات کے مطابق ایک نیکی کا ثواب دس کے برابر ہوتاہے، اس
اعتبار سے شوال کے چھ روزوں کا ثواب دو
ماہ کے روزوں کے برابر ہوا اور رمضان کے تیس روزوں کا ثواب تین سو روزوں کے برابر ہوا،
ان دونوں کو ملایا جائے تو تین سو ساٹھ روزوں کو ثواب بنتا ہے ۔
رمضان کی قضاء اور شوال کے روزے
۷۔جس کے ذمے رمضان کے روزوں کی قضاء ہو ،کیا اسے شوال کے چھ روزے رکھنے کا ثواب ملے گا، اسے یہ ثواب نہیں ملے گا کیونکہ حدیث شریف میں ہے جس نے رمضان کے روزے رکھے اور پھر شوال کے چھ روزے رکھے تو اسے یہ فضیلت ملے گی، اس کے ذمے ابھی رمضان کے روزے قضاء ہے تو اسے پہلے رمضان کے روزے قضاء کرنے چاہییں پھر یہ روزے رکھنے چاہییں۔
تحریر کا خلاصہ:
شوال کے چھ روزے رکھنا مستحب ہے، ان کی فضیلت حدیث میں آئی ہے، یہ روزے اگر عید کے پہلے دن سے شروع کیے جائیں تو مکروہ ہیں، اگر عید کے دوسرے دن سے شروع کیے جائیں تو جائز اور مستحب ہیں، ان کو اکھٹے بھی رکھ سکتے ہیں اور جدا جدا بھی رکھ سکتے ہیں، ان روزوں کی حکمت یہ ہے کہ رمضان کے بعد لوگ غافل نہ ہوجائیں بلکہ وہی روٹین باقی رہے، رمضان کے تیس اور شوال کے چھ ملا کر چھتیس روزے بنتے ہیں اور قرآن کے مطابق ایک نیکی کا ثواب دس گنا ہے، اس اعتبار سے چھتیس روزوں کا ثواب تین سو ساٹھ روزوں کے برابر ہے اور اسلامی سال کے دن تقریبا اتنے ہی ہوتے ہیں، جس کے ذمے رمضان کے قضاء روزوں ہو اسے چاہیے کہ پہلے رمضان کی قضاء کرے اور پھر یہ روزے رکھے۔
COMMENTS