اسلام بزنس پارٹنر شب میں نفع و نقصان کے حوالے سے کیا کہتا ہے، اس کو سمجھنے کیلئے ہم آپ کے سامنے مفتی تقی عثمانی صاحب کے چند فتاوی پیش کر رہے ہیں، پہلے فتوے میں ایک شخص نے ان سے سوال کیا تھا کہ میں پندرہ فیصد نفع و نقصان کی بنیاد پر پارٹنر شب کر رہا ہوں کیا میرا ایسا کرنا درست ہے، دوسرے سوال میں ایک شخص نے سوال کیا کہ میں کل سرمایہ لگا رہا ہوں دوسرا آدمی صرف محنت کرے گا تو اس صورت میں نفع و نقصان کی کیا صورت ہوگی۔
پہلا سوال:
عرض
اینکہ کسی شخص کا سرمایہ بندہ اپنی تجارت میں لگا رہا ہے، اس شخص کو سرمایہ کی بنیاد پر نہیں
بلکہ نفع و نقصان کی ایک خاص نسبت کی بنیاد پر مثلا پندرہ فیصد منافع اور پندرہ
فیصد نقصان کی بنیاد پر اپنے ساتھ شریک تجارت کر رہا ہوں، کیا از روئے شریعت ایسا
کرنا جائز ہے؟
مفتی تقی عثمانی صاحب کا جواب:
اگر آپ اس شخص سے یہ طے کریں کہ آپ کے اور میرے سرمائے سے
تجارت کرنے کے بعد جو منافع ہوگا اس نفع کا پندرہ فیصد آپ کا ہوگا ، تو یہ صورت جائز ہے۔
البتہ
نقصان کی صورت میں پندرہ فیصد کا تعین اسی صورت میں جائز ہوگا جب اس کا لگایا ہوا سرمایہ تجارت کے کل سرمائے کا پندرہ فیصد ہو۔
اگر اس کا لگایا ہوا سرمایہ کل تجارت کے سرمائے کے پندرہ فیصد سے کم یا زیادہ ہے تو اس صورت میں اسے پندرہ فیصد نقصان میں شریک کرنے سے شرکت فاسد ہو جائے گی۔
اصول یہ ہے کہ نفع کا تناسب تو شرکا ء باہمی رضامندی سے جو چاہیں مقرر کر سکتے ہیں
لیکن
نقصان ہمیشہ سرمائے کے تناسب کے
مطابق ہونا ضروری ہے، یعنی جس نے جتنے فی صد سرمایہ لگایا اتنا ہی فیصد نقصان بھی اٹھائے۔
(فتاوی عثمانی، جلد تین)
دوسرا سوال:
سلیپنگ پارٹنر کے طور پر کسی کاروبار میں اس شرط کے ساتھ پیسہ لگانا کہ جو نفع و نقصان بھی ہوگا، ایک متعین فیصد سلیپنگ پارٹنر کے حصے میں آئےگا، مثلا پچیس فیصد نفع و نقصان دونوں میں ۔
اس میں بھی دو ذیلی امکان موجود ہیں:
ا۔ ایکٹو پارٹنر صرف محنت کر رہا ہے اس کا سرمایہ تجارت نہیں ہے
۲۔ ایکٹو پارٹنر نے محنت کے علاوہ سرمایہ بھی لگایا ہوا ہے
جواب:
اگر کام کرنے والا صرف محنت کر رہا ہے ، اس کا کوئی سرمایہ شامل ہے تو اس صورت میں نقصان کی کوئی ذمہ داری اس پر ڈالنا شرعا جائز نہیں
معاملے کی صحت کے لیے یہ ضروری ہے کہ نفع کا کوئی فیصد حصہ دونوں کے لیے متعین کیا جائے اور یہ طے کیا جائے کہ نقصان کی صورت میں تمام نقصان سرمایہ لگانے والے کا ہوگا ۔
اور
اگر کام کرنے والے نے محنت کے علاوہ کچھ سرمایہ بھی لگایا ہے تو دونوں کے درمیان نفع کا تناسب باہمی رضامندی سے طے ہو سکتا ہے
لیکن نقصان کی صورت میں دونوں اپنے اپنے لگائے ہوئے سرمائے کے تناسب سے اسے برداشت کریں گے
مثلا
کام کرنے والے نے کل سرمائے کا دس فیصد اپنے پاس سے لگایا ہو اور نوے فیصد دوسرے فریق نے لگایا ہو تو نقصان کی صورت میں پہلا فریق دس فیصد اور دوسرا فریق نوے فیصد کا ذمہ دار ہوگا۔
(فتاوی عثمانی،جلد تین)
مزید یہ بھی پڑھیے:
COMMENTS