ایک کھرپ پتی بزنس مین کی کہانی
انیس سو پچاس کی بات ہے ،ایک پاکستانی معمولی سے businessman مکہ گئے اور وہاں فٹ پاتھ پر رومال بچھا کر گھڑیاں watches بیچنے لگے ، وہ نیک آدمی تھے جھوٹ فراڈ سے کام نہیں لیتے تھے بلکہ ایمان داری سے کام کرتے تھے، اس وجہ سے اللہ تعالی سے ان کے کاروبار میں برکت دی اور ایک وقت ایسا آیا کہ ان کا کاروبار اس قدر پھیل گیا کہ ایشیاء کی سب سے بڑی ٹیکسٹائل مل ان کی تھی، اسی طرح ایشیاء کی سب سے بڑی سونے کی فیکٹری ان کی تھی۔
ان کے علماء کرام کے ساتھ بھی اچھے مراسم تھے، مولانا طارق جمیل صاحب جب حج یا عمرے پر جاتے تو ان ہی کے پاس ٹھہرا کرتے تھے، ایک مرتبہ یہ بہت بیمار ہو گئے حتی کہ ان کا نچلا دھڑ کام کرنا چھوڑ گیا ،اس وقت انہوں نے مولانا طارق جمیل صاحب سے ملاقات کی اور کہا کہ میں نے دنیاوی اعتبار سے ایک کامیاب زندگی گزاری ہے ،اب مجھے اپنی آخرت کی فکر ہے، مجھے کوئی بخشش کی صورت بتائیں کیونکہ میں نے جہاں کیلئے زیادہ کام کرنا تھا وہاں کیلئے کم کیا ہے اور جہاں کیلئے کم کام کرنا تھا وہاں کیلئے بہت زیادہ کر لیا تھا، مولانا طارق جمیل صاحب کہتے ہیں کہ مجھے آج تک اس کا یہ جملہ نہیں بھولتا ، اللہ تعالی اس شخص کی بخشش فرمائے ۔
مولانا طارق جمیل صاحب اس کھرپ پتی billionaire بزنس مین کا واقعہ سنانے کے بعد کہتے ہیں، جس کے متعلق لوگ کہتے تھے کہ اس نے تو ایک کامیاب زندگی گزاری ہے، وہ مجھے مرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ مجھے بخشش کی کوئی صورت بتاؤ۔
مولانا طارق جمیل صاحب اس پر مزید کہتے ہیں، اگر زندگی فقط اس مٹ جانے والے جہاں کو منزل بنا لے گی اور دل و دماغ کی سوچوں کا طواف اسی کیلئے ہوگا تو اس سے زیادہ حسرت والی زندگی اور اس سے زیادہ افسوس ناک موت اور کوئی نہیں ہوگی ۔
COMMENTS