ٹرین اور بس میں استقبال قبلہ
ٹرین اپنی وضع کے لحاظ سے اس نوعیت کی ہے کہ اس میں قبلہ کا استقبال کیا جاسکتا ہے اور درمیان میں اگر انحراف پیدا ہو جائے تو قبلہ درست بھی کیا جاسکتا ہے اس لئے ٹرین میں فرض نمازوں کے آغاز کے وقت بھی اور دوران نماز بھی قبلہ کا استقبال ضروری ہے۔
اگر نماز قبلہ رخ ہوکر شروع کی ۔ درمیان میں ٹرین یا بس نے رخ بدلاتو اپنارخ بھی بدل لینا چاہے اور اس کی نظیر فقه کا وہ جز ہے جولنگر انداز کشتی کے متعلق فقہاء نے لکھا ہے:
عربی عبارت:
"والمربوطة بلجة البحر ان كان الريح يحركها شديدا فكالسائرة والافكالوا قفة ويلزم استقبال القبلة عند الافتتاح وكلما دارت
ترجمة:
"کشتی اگر تیز ہوا کی وجہ سے بہت متحرک ہوتو چلتی ہوئی کشتی کے حکم میں ہے اور اگرایسا نه ہو تو ٹہری ہوئی کشتی کے حکم میں ہے، نیز قبلہ کا استقبال نماز کے افتتاح کے وقت بھی ضروری ہوگا اور اس وقت بھی جب وہ مڑے۔
ہاں اگر اس قدر اژدھام ہو کہ مڑنا ممکن نہ ہو اور ریل سے باہر نکل کر نماز کی ادائیگی کا موقع نہ ہو تو پڑھ سکتے ہیں۔
مفتی عزیز الرحمن عثمانی صاحب کے بقول :
فارسی عبارت:
اگر فی الحقیقت ہجوم ایں قدر باشد که حرکت رکوع و سجود ممکن نیست و نیز بر صلوۃ از خارج ریل قادر نیست، بلا استقبال وبلا قیام ادا کنند
بسوں کی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ اگر بس سمت قبلہ میں نہ جارہی ہو تو قبلہ کا استقبال نہیں کیا جا سکتا، ایسی صورت میں اگر بس ٹہری ہوئی ہو تو نیچے اتر کر نماز پڑھنا واجب ہے۔
چل رہی ہومگر سوار رکوا سکتا ہو تو اب بھی اتر کر استقبال قبلہ کے ساتھ نماز ادا کرے اور سوار رکوانے پر قادر نہ ہوتو استقبال کے بغیر نماز ادا کی جاسکتی ہے۔
ابن ہمام کا بیان ہے:
عربی عبارت:
ولو كان على الدابة يخاف النزول للطين والردغة يستقبل قال في الظهيرية وعندي هذا اذا كانت واقفة، فان كانت سائرة يصلي حيث شاء، ولقائل أن يفصل بين كونه لو وقفھا للصلوة خاف الانقطاع عن الرفقة اولا يخاف، فلا يجوز في الثاني الا ان يوقفها ويستقبل
ترجمہ:
اگر سواری پر ہو اور مٹی کیچڑ کی وجہ سے نیچے اترنے سے ڈرتا ہو تو سواری کے اوپر ہی استقبال قبلہ کرے، فقاری ظہیر یہ میں ہے کہ میرے نزدیک یہ حکم اس وقت ہے جب کہ سواری رکی ہوئی ہو، اگر سواری چل رہی ہو تو جدھر چاہے (رخ کرکے ) نماز پڑھے اور یہ بات کی جاسکتی ہے کہ اس صورت میں کہ اگر نماز کے لئے روکے تو رفقا ء سفر سے پیچھے رہ جائے اور اس صورت میں کہ نہ رہنے کا اندیشہ نہیں فرق کیا جانا چاہئے کہ دوسری صورت میں بغیر سواری رو کے اور استقبال قبلہ کئے ہوئے نماز درست نہ ہوگی۔ نیز ابن قدامہ کا بیان ہے
وحكم الصلوة على الراحلة حكم الصلوة في الخوف في أنه يؤمی بالركوع والسجود ويجعل السجود أخفض من الركوع قال جابر بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم في حاجة فجئت وهو يصلي على راحلته نحو المشرق والسجود اخفض من الركوع له
ترجمہ:
سواری پر نماز پڑھنے کا حکم وہی ہے جو خوف کی حالت میں نماز پڑھنے کا حکم ہے کہ رکوع اور سجدہ اشارہ سے کرے اور سجدہ کو رکوع سے نسبتا پست رکھے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ایک ضرورت سے بلایا۔ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ سواری پر مشرق کی طرف نماز ادا کر رہے ہیں اور سجدہ کا اشارہ رکوع سے پست رکھتے ہیں۔“
از
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
جدید فقہی مسائل، جلد اول
ٹرین اپنی وضع کے لحاظ سے اس نوعیت کی ہے کہ اس میں قبلہ کا استقبال کیا جاسکتا ہے اور درمیان میں اگر انحراف پیدا ہو جائے تو قبلہ درست بھی کیا جاسکتا ہے اس لئے ٹرین میں فرض نمازوں کے آغاز کے وقت بھی اور دوران نماز بھی قبلہ کا استقبال ضروری ہے۔
اگر نماز قبلہ رخ ہوکر شروع کی ۔ درمیان میں ٹرین یا بس نے رخ بدلاتو اپنارخ بھی بدل لینا چاہے اور اس کی نظیر فقه کا وہ جز ہے جولنگر انداز کشتی کے متعلق فقہاء نے لکھا ہے:
عربی عبارت:
"والمربوطة بلجة البحر ان كان الريح يحركها شديدا فكالسائرة والافكالوا قفة ويلزم استقبال القبلة عند الافتتاح وكلما دارت
ترجمة:
"کشتی اگر تیز ہوا کی وجہ سے بہت متحرک ہوتو چلتی ہوئی کشتی کے حکم میں ہے اور اگرایسا نه ہو تو ٹہری ہوئی کشتی کے حکم میں ہے، نیز قبلہ کا استقبال نماز کے افتتاح کے وقت بھی ضروری ہوگا اور اس وقت بھی جب وہ مڑے۔
ہاں اگر اس قدر اژدھام ہو کہ مڑنا ممکن نہ ہو اور ریل سے باہر نکل کر نماز کی ادائیگی کا موقع نہ ہو تو پڑھ سکتے ہیں۔
مفتی عزیز الرحمن عثمانی صاحب کے بقول :
فارسی عبارت:
اگر فی الحقیقت ہجوم ایں قدر باشد که حرکت رکوع و سجود ممکن نیست و نیز بر صلوۃ از خارج ریل قادر نیست، بلا استقبال وبلا قیام ادا کنند
بسوں کی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ اگر بس سمت قبلہ میں نہ جارہی ہو تو قبلہ کا استقبال نہیں کیا جا سکتا، ایسی صورت میں اگر بس ٹہری ہوئی ہو تو نیچے اتر کر نماز پڑھنا واجب ہے۔
چل رہی ہومگر سوار رکوا سکتا ہو تو اب بھی اتر کر استقبال قبلہ کے ساتھ نماز ادا کرے اور سوار رکوانے پر قادر نہ ہوتو استقبال کے بغیر نماز ادا کی جاسکتی ہے۔
ابن ہمام کا بیان ہے:
عربی عبارت:
ولو كان على الدابة يخاف النزول للطين والردغة يستقبل قال في الظهيرية وعندي هذا اذا كانت واقفة، فان كانت سائرة يصلي حيث شاء، ولقائل أن يفصل بين كونه لو وقفھا للصلوة خاف الانقطاع عن الرفقة اولا يخاف، فلا يجوز في الثاني الا ان يوقفها ويستقبل
ترجمہ:
اگر سواری پر ہو اور مٹی کیچڑ کی وجہ سے نیچے اترنے سے ڈرتا ہو تو سواری کے اوپر ہی استقبال قبلہ کرے، فقاری ظہیر یہ میں ہے کہ میرے نزدیک یہ حکم اس وقت ہے جب کہ سواری رکی ہوئی ہو، اگر سواری چل رہی ہو تو جدھر چاہے (رخ کرکے ) نماز پڑھے اور یہ بات کی جاسکتی ہے کہ اس صورت میں کہ اگر نماز کے لئے روکے تو رفقا ء سفر سے پیچھے رہ جائے اور اس صورت میں کہ نہ رہنے کا اندیشہ نہیں فرق کیا جانا چاہئے کہ دوسری صورت میں بغیر سواری رو کے اور استقبال قبلہ کئے ہوئے نماز درست نہ ہوگی۔ نیز ابن قدامہ کا بیان ہے
وحكم الصلوة على الراحلة حكم الصلوة في الخوف في أنه يؤمی بالركوع والسجود ويجعل السجود أخفض من الركوع قال جابر بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم في حاجة فجئت وهو يصلي على راحلته نحو المشرق والسجود اخفض من الركوع له
ترجمہ:
سواری پر نماز پڑھنے کا حکم وہی ہے جو خوف کی حالت میں نماز پڑھنے کا حکم ہے کہ رکوع اور سجدہ اشارہ سے کرے اور سجدہ کو رکوع سے نسبتا پست رکھے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ایک ضرورت سے بلایا۔ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ سواری پر مشرق کی طرف نماز ادا کر رہے ہیں اور سجدہ کا اشارہ رکوع سے پست رکھتے ہیں۔“
از
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
جدید فقہی مسائل، جلد اول
COMMENTS