تفسیر احسانی قسط نمبر نو
بسم اللہ کی ب کے نیچے زیر کیوں آئی ہے ؟
اس سے پچھلی قسط میں ہم نے بیان کیا تھا کہ بسم اللہ کی ب کیلئے کون کون سے معانی ماننا درست ہے ،اس قسط میں ہم بسم اللہ کی ب کے نیچے زیر کیوں آئی ہے اس حوالے سے مطالعہ کریں گے۔
عمومی طور پر جو حروف مفرد ہوتے ہیں ،ان پر زبر آتی ہے ۔
جیسےک ،ت اور واؤ وغیرہ ۔
اس اعتبار سے حرف ب پر بھی زبر ہونی چاہیے تھی۔
بسم اللہ کی ب کے نیچے زیر کیوں آئی،اس حوالے سے ہم نے چند تفاسیر کا مطالعہ کیا تو ہمارے سامنے درج ذیل باتیں آئیں۔
ابو اسحاق ثعلبی کی تفسیر " الکشف والبیان عن تفسیر القرآن " میں ہے :
یہ ب زائدہ ہے اور یہ ہمیشہ مکسور ہی ہوتی ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ حرف باء ناقص امالہ شدہ ہے اور امالہ کسرہ کی دلیل ہے ۔
علامہ سیبویہ کہتے ہیں :
جب حرف ب کا عمل صرف زیر دینا ہی ہو تو اسے کسرہ دی جاتی ہے ۔
علامہ مبرد کہتے ہیں :
حرف ب کو زیر دینے کی وجہ اس کو اصل کی طرف پھیر نا ہے ۔
علامہ جار اللہ زمخشری کی "الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل" میں ہے :
اگر تم کہو کہ حروف معانی جب مفرد حرف کی صورت میں آئیں تو ان کا حق یہ ہے کہ وہ مبنی بر فتحہ ہونے چاہییں ،فتحہ سکون کی بہن ہے ،جیسے تشبیہ کا کاف ،ابتداء کا لام ،عطف کا واؤاور ف وغیرہ ۔
پھر کیا وجہ ہے کہ ل اور ب مبنی بر کسرہ ہیں ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ حرف جار ل مبنی برکسرہ اس لیے ہے تاکہ اس کے اور لام ابتداء کے درمیان فرق ہو جائے اور حرف جار ب مبنی پر کسرہ اس لیے ہے کیونکہ یہ حرفیت اور جر کو لازم ہے ۔
اس حوالے سےابو محمد اندلسی محاربی کی تفسیرابن عطیہ یعنی " المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز " میں ہے :
بسم اللہ کی ب کو جر دی گئی ہے تاکہ اس نے جو عمل کرنا ہے اسی کے موافق اس کا اپنا اعراب بھی ہوجائے۔بسم اللہ کی ب کو زیر دینے کی دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ صرف اسماء پر ہی داخل ہوتی ہےاسی لیے اسے زیر کے ساتھ ہی خاص کر دیا گیا ہے جو صرف اسماء ہی کا خاصہ ہے ۔بسم اللہ کی ب کو زیر دینے کی تیسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ تاکہ حرف جار ب اور اور ان کے درمیان فرق ہو جائے جو حرو ف اسماء میں سے ہیں جیسے کہ کاف ۔
اس حوالے سے ناصر الدین شیرازی بیضاوی کی تفسیر " انوار التنزیل و اسرار التاویل " میں ہے:
حروف مفردہ کا حق یہ ہے کہ انہیں فتحہ دی جائےلیکن یہاں بسم اللہ کی ب کو کسرہ دی گئی ہے
اس کی وجہ ب کا اختصاص ہے ،یہ حرفیت اورجر کو لازم ہے ۔
اسی طرح لام امر اور لام اضافت جو اسم ظاہر پر داخل ہوں انہیں بھی کسرہ دی گئی ہے تاکہ لام ابتداء اور ان دونوں لاموں میں فرق ہو جائے ۔
اس حوالے سے ابوالبرکات عبد اللہ نسفی کی "مدارک التنزیل و حقائق التاویل " یعنی تفسیر نسفی میں ہے :
بسم اللہ کی ب مبنی بر کسرہ اس لیے ہے کیونکہ وہ حرفیت اور جر کو لازم ہے اسی لیے اسے کسرہ دی گئی ہے تاکہ اس کی اپنی حرکت بھی عمل کے مشابہ ہو جائے ۔
اب تك كے مطالعے سے سمجھ میں آیا کہ بسم اللہ کی ب کو زیر اس لیے دی گئی ہے تاکہ اس کا اعراب بھی عمل کے موافق ہو جائے، دوسرا سبب یہ ہے کہ یہ صرف اسماء پر داخل ہوتی ہےاور زیر اسماء ہی کےا ٓخر میں آتی ہیں، اس لیے اسے بھی زیر دے دی گئی ہے، اسےحروف اسماء ک وغیرہ سے ممتاز کرنے کیلئے زیر دی گئی ہے۔
فی الحال اجازت دیجیے ،ملتے ہیں اگلی قسط میں ، تفسیر احسانی کی تمام اقساط یہاں ملاحظہ فرمائیں۔
COMMENTS