شلوار کے پانچوں سے متعلق اہم سوال
سوال :
دیوبندی اور سلفی لوگ عموما اپنی شلوار کےپانچنےٹخنوں سے اوپر رکھتے ہیں بلکہ بعض تو آدھی پنڈلی تک اوپر کر لیتے ہیں جبکہ اس کے برعکس عموما بریلوی حضرات شلوار کے پانچے ٹخنوں سے نیچے ہی رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دیوبندی اور سلفی لوگوں پر طنز بھی کرتے ہیں کہ چھوٹے بھائی کی شلوار اوربڑے بھائی کی قمیص پہنے والے لوگ۔
ان دونوں گروہوں میں سے کس کا عمل درست ہے اور کس کا عمل غلط ہے ؟ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام اپنے پانچے کہاں رکھتے تھے اور ایک مسلمان کو اپنے پانچے کہاں تک رکھنے چاہیے؟
جواب:
یہ سوال تین حصوں پر مشتمل ہے، ہم اس کا جواب بھی تین حصوں میں دے رہے ہیں۔
پہلا حصہ:
اس معاملہ میں دیوبندی اور سلفی حضرات کا عمل درست ہے کیونکہ ٹخنوں سے اوپر اور آدھی پنڈلی تک شلوار رکھنا یہ رسول اللہ ﷺ کی سنت مبارکہ ہے، یہاں بہت سے بریلوی دوست حیران ہوں گے کہ شلوار کو ٹخنوں سے اوپر رکھنا تو سنت ہے لیکن آدھی پنڈلی تک پانچے رکھنا کب سے سنت ہوگیا تو جناب یہ پہلے سے ہی سنت ہے اور اس کی ترغیب حدیث مبارکہ میں دلائی گئی ہے.
سنن ابن ماجہ میں ہے :
ازارۃ المؤمن الی انصاف ساقیہ
ترجمہ: مومن کا ازار نصف ساق یعنی آدھی پنڈلی تک ہوتا ہے ۔
دوسرا حصہ:
خود رسول اللہ ﷺ کی ازار بھی آدھی پنڈلی تک ہوتی تھی ، اس حوالے سے فتاوی رضویہ کی بائیسویں جلد میں ہے:
اعلی حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی صاحب لکھتے ہیں:
ہاں اس میں شبہہ نہیں کہ نصف ساق تک پائچوں کا ہونا بہتر وعزیمت ہے اکثر ازار پر انوار سیدالابرار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یہیں تک ہوتی تھی۔
تیسرا حصہ :
ایک مسلمان کو اپنے پانچے کہاں تک رکھنے چاہیے تو اس کا جواب بھی فتاوی رضویہ کی بائیسویں جلد میں موجود ہے،اعلی حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی صاحب لکھتے ہیں:
نیم ساق تک عزیمت اور کعبین تک رخصت۔
امام نووی فرماتے ہیں :
فالمستحب نصف الساقین والجائز بلاکراھۃ ماتحتہ الی الکعبین ۳؎
ترجمہ:
مستحب ہے کہ ازار (تہبند) پنڈلیوں کے نصف تک ہو اور بغیر کراہت جائز ہے کہ نیچے ٹخنوں تک ہو۔
(۳؎ شرح الصحیح المسلم للنوی کتاب اللباس باب تحریم جر الثواب الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۱۹۵)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
ینبغی ان یکون الازار فوق الکعبین الی نصف الساق ۴؎
ترجمہ:
مناسب ہے کہ ازار ٹخنوں سے اوپر نصف پنڈلی تک ہو۔
(۴؎ فتاوٰی ہندیۃ کتا ب الکراھیۃ الباب السابع نورانی کتب خانہ پشاور ۵ /۳۳۳)
اس حوالے سے موطا امام مالك میں حدیث ہے:
«إزرة المسلم إلى أنصاف ساقيه. لا جناح عليه فيما بينه وبين الكعبين.
ترجمہ:
مسلمان کا ازار آدھی پنڈلی تک ہوتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں کہ اس کا ازار آدھی پنڈلی سے لے کر ٹخنوں کے درمیان ہو۔(یعنی ٹخنوں سے اوپر ہو اور آدھی پنڈلی تک ہو)
مزید یہ بھی پڑھیے:
کیا حضرت ابن عمر داڑھی کاٹتے تھے؟
عید میلاد النبی سے متعلق چند اہم سوال
COMMENTS